سوال (977)
کیا روزے کی حالت میں cap.combivior 400mg سانس کے مریض منہ میں لے کے سگریٹ کی طرح اندر کھینچتے ہیں اور وہ پاؤڈر جو کیپسول میں ہوتا ہے وہ گلے میں جاتا ہے، کیا روزے دار روزے کی حالت میں استعمال کر سکتا ہے؟
جواب
رمضان المبارک میں روزے کی حالت میں دمہ کی سپرے کا استعمال روزے کو فاسد نہیں کرتا، دمہ کی سپرے سے روزہ نہیں ٹوٹتا کیونکہ وہ پریشر گیس ہوتی ہے جو پھیپھڑوں میں جاتی ہے اور وہ کھانا نہيں، دمہ کا مریض ہر وقت رمضان اور غیر رمضان دونوں حالتوں میں اس کا محتاج رہتا ہے۔
[دیکھیں فتاوی الدعوۃ ابن باز عدد نمبر: 979، اور اس کے علاوہ ویپ سائٹ پر کتابوں کی قسم میں رسالۃ “روزوں کے ستر مسائل” بھی دیکھیں]
شیخ ابن عثيمین رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے:
یہ سپرے بخار بن جاتی ہے اورمعدہ میں نہیں جاتی، اس لیے ہم یہ کہيں گے: آپ روزے کی حالت میں اسے استعمال کرسکتے ہيں اس میں کوئي حرج نہيں اس سے روزہ نہيں ٹوٹتا۔ اھـ
[دیکھیں فتاوی ارکان الاسلام صفحہ: 475 ]۔
مستقل فتوی کمیٹی “اللجنۃ الدائمۃ” کے علماء کرام کا کہنا ہے:
مریض جودمہ کی دوا سونگھ کراستمعال کی جاتی ہے وہ سانس کے ذریعہ پھیپھڑوں تک جاتی ہے نہ کہ معدہ میں، لھذا یہ کھانا پینا نہیں اور نہ ہی اس کےحکم میں آتی ہے۔ ظاہر یہ ہوتا ہے کہ اس دوا کےاستعمال سے روزہ نہيں ٹوٹتا۔ [فتاوی اسلامیۃ: 1 / 130]
واللہ اعلم.
فضیلۃ الباحث مرتضی ساجد حفظہ اللہ
صحیح بات یہ ہے کہ انہیلر سے روزہ نہیں ٹوٹتا ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
ناک “منفذ” ہے۔ شرعی لحاظ سے بھی اور طبی لحاظ سے بھی۔ شرعی دلیل اس کی لقيط بن صبرة کی حدیث میں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یہ فرمایا: بالغ في الاستنشاق إلا أن تكون صائما۔
لہذا کوئی بھی دوائی جو ناک سے جسم میں داخل ہوتی ہے وہ معدے تک لازمی پہنچتی ہے چاہے وہ مائع یعنی قطرات کی شکل میں ہو یا پھر جامد کی شکل میں۔
اب اس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے یا نہیں اس میں علماء کی دو آراء ہیں۔ زیادہ معتبر اور مضبوط یہی ہے کہ اس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ اس لیے کہ یہ دوا اپنے اندر ایک مخصوص ذائقہ رکھتی ہے جو حلق سے گزرتے ہوئے باآسانی محسوس کی جا سکتی ہے۔ لہذا مجوزین کا یہ کہنا کہ یہ حلق میں اپنا اثر نہیں چھوڑتا یا اگر چھوڑتا ہے تو بہت کم جیسا کہ مضمضمہ کا اثر ہوتا ہے عبث ہے۔
کچھ علماء نے انہیلر یا قطرات الأنف کی دو قسمیں بتائی ہیں:
1- ما تصل إلى المعدة: جو معدے تک اپنا اثر چھوڑے۔ اس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔
2- ما لا تصل إلى المعدة: جو معدے تک اپنا اثر نا چھوڑے۔ یہ قسم جائز ہے، اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔
شيخ ابن باز رحمه الله تعالى فرماتے ہیں:
“أما القطرة في الأنف: فلا تجوز، لأن الأنف منفذ، ولهذا قال النبي صلى الله عليه وسلم: وبالغ في الاستنشاق إلا أن تكون صائماـ وعلى من فعل ذلك القضاء لهذا الحديث وما جاء في معناه إن وجد طعمها في حلقه. والله ولي التوفيق”.
اور شيخ ابن عثيمين رحمه الله تعالى فرماتے ہیں: “قطرة الأنف إذا وصلت إلى المعدة، فإنها تفطر، لأن النبي صلى الله عليه وسلم قال في حديث لقيط بن صبرة: بالغ في الاستنشاق إلا أن تكون صائماً ـ فلا يجوز للصائم أن يقطر في أنفه ما يصل إلى معدته، وأما ما لا يصل إلى ذلك من قطرة الأنف، فإنها لا تفطر”.
والله تعالى أعلى وأعلم والرد إليه أفضل وأسلم.
فضیلۃ الباحث ابو دحیم محمد رضوان ناصر حفظہ اللہ