سوال (500)

“وَمَنۡ يُّؤۡمِنۡۢ بِاللّٰهِ يَهۡدِ قَلۡبَه‌ؕ” [التغابن : 11]

میں “يَهۡدِ قَلۡبَه” سے یہ مراد لینا کہ انسان کے دل میں ایک چھوٹا سا اللہ کا گھر بن جاتا ہے ، ایک چھوٹا عرش بن جاتا ہے یعنی ایک عرش عظیم اوپر اور چھوٹا عرش دل کے اندر پیدا ہو جاتا ہے ۔ اس حوالے سے رہنمائی فرمائیں ؟

جواب

اس آیت کی تفسیر شیخ عبد السلام بھٹوی رحمہ اللہ نے یوں کی ہے ۔
طبری نے علی بن ابی طلحہ کی معتبر سند کے ساتھ ”

“وَمَنۡ يُّؤۡمِنۡۢ بِاللّٰهِ يَهۡدِ قَلۡبَه “

کے متعلق ابن عباس رضی اللہ عنھما کا قول نقل فرمایا ہے :

“يَعْنِيْ يَهْدِ قَلْبَهُ لِلْيَقِيْنِ فَيَعْلَمُ أَنَّ مَا أَصَابَهُ لَمْ يَكُنْ لِيُخْطِه وَمَا أَخْطَأَهُ لَمْ يَكُنْ لِيُصِيْبَه” [ طبري : 12/23، ح : ۳۴۵۰۹ ]

«یعنی (آیت کا مطلب یہ ہے کہ جو اللہ پر ایمان رکھے) اللہ تعالیٰ اس کے دل کو یقین کی ہدایت دیتا ہے اور وہ جان لیتا ہے کہ اس پر جو مصیبت آئی وہ کسی صورت اس سے خطا کرنے والی نہیں تھی اور جو خطا کر گئی وہ کسی صورت اس پر آنے والی نہیں تھی»
اور اعمش نے ابو ظبیان سے بیان کیا کہ ہم علقمہ کے پاس تھے، ان کے پاس یہ آیت پڑھی گئی : ”

“وَمَنۡ يُّؤۡمِنۡۢ بِاللّٰهِ يَهۡدِ قَلۡبَه “

اور اس کا مطلب پوچھا گیا تو انھوں نے فرمایا : «اس سے مراد وہ آدمی ہے جسے کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ جان لیتا ہے کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے، اس پر راضی ہوجاتا ہے اور اسے تسلیم کرلیتا ہے۔»[ابن جریر و ابن ابی حاتم بسند صحیح]
باقی دل میں چھوٹے عرش والی وضاحت میں بالکل حرج ہے ، اس میں عقیدہ حلول کی بو آرہی ہے اگر مفسر ھذا کا حلول کا نظریہ نہ بھی ہو اور وہ اسکی تاویلات کرے تب بھی یہ تفسیر حلولیوں و وجودیوں سے مشابہت رکھتی ہے، لہذا اس طرح کی تفسیر کرنے سے اجتناب کرنا چاہییے۔

فضیلۃ العالم فہد انصاری حفظہ اللہ