سوال (4850)
کیا اس وقت ہم ایران کی حمایت کر سکتے ہیں؟
جواب
ہم سب دیکھ رہے ہیں کہ اسرائی کب سے معصوم لوگوں کو غزہ میں مار رہا ہے ویسے بھی ساری دنیا کے مسلمانوں کو اسرائیل سے تکلیف ہے اس کے خلاف کوئی مسلمان ملک کھڑا نہیں ہو رہا اور اس پہ ایران بمباری کر رہا ہے اس پورے تناظر کے باوجود آج اکثر لوگوں کی طرف سے یہ سوال پوچھا جا رہا ہے کہ کیا ہم ایران کی حمایت کر سکتے ہیں یا مدد کر سکتے ہیں یا حمایت و مدد کرنی چاہئے۔
اصل میں یہ سوال کرنے والے دو بڑے گروہ ہیں دونوں گروہوں کے سوال کرنے کا پس منظر مختلف ہے نیچے دونوں گروہوں کے سوال کا پس منظر اور پھر اس پہ جواب دیا جا رہا ہے۔
1۔ پہلے گروہ کا پس منظر:
بعض محب پاکستان یہ سمجھتے ہیں کہ ایران نے انقلاب کے بعد انڈیا پاکستان کی جنگ میں کبھی کھل کر پاکستان کا ساتھ نہیں دیا اور را کے کچھ ایجنٹس ایران کی طرف سے بلوچستان میں فساد پھیلا رہے ہیں تو ہم کیسے اسکی حمایت یا مدد کر سکتے ہیں۔
اسکا جواب یہ ہے کہ سمجھداری اور حب الوطنی کا تقاضا یہ ہے کہ ماضی کی باتوں پہ فیصلہ کرنے کی بجائے موجودہ حالات کو دیکھ کر فیصلہ کیا جائے مثلا ماضی میں ہمارا ٹرمپ یا مریکہ کے ساتھ تعلق مختلف فیہ رہا ہے مگر اب پاک انڈیا جنگ میں اسنے جنگ بندی کروائی تو ہماری حکومت کی طرف سے ٹرمپ کو امن کا نوبل پرائز دینے کی سفارش کی گئی ہے۔ ماضی میں روس کے ساتھ سرد جنگ چلتی رہی پراکسی وار ہوتی رہی ہے لیکن بعد میں جب سستا تیل چاہے تھا تو امریکہ کو ناراض کر کے روس سے تعلق بڑھایا گیا ہے پس حب الوطنی میں موجودہ حالات کو زیادہ دیکھا جاتا ہے اور موجودہ حالات میں اگر اسرائیل کو نہ روکا گیا تو وہ خطے (بشمول پاکستان) کے لئے غیر معمولی نقصان کا باعث بن سکتا ہے فرض کریں ایران نے انڈیا کے خلاف ہمارا ساتھ نہیں دیا پھر بھی اس نے اس طرح انڈیا کا ساتھ بھی نہیں دیا جس طرح اسرائیل نے انڈیا کا ساتھ دیا ہے پس حب الوطنی کا تقاضا ہے کہ ہمیں اسرائیل کے خلاف ایران کی کھل کر حمایت و مدد کرنی چاہئے۔
2۔ دوسرے گروہ کا پس منظر:
بعض توحید والے اور محب صحابہ یہ سمجھتے ہیں کہ چونکہ ایران والے مشرک ہیں اور صحابہ کے گستاخ ہیں اس لئے ہم کیسے اسکی حمایت یا مدد کر سکتے ہیں۔
اس پس منظر والے گروہ کے لئے جواب یہ ہے کہ یہ سوال دراصل ایک غلط مفروضے کا نتیجہ ہے پس پہلے اس غلط مفروضے کو سمجھانا اور کلیئر کرنا بہت ضروری ہے۔
وہ غلط مفروضہ یہ ہے کہ دو ایسی چیزوں کو آپس میں لازم و ملزوم سمجھ لیا جائے جو شرعا لازم ملزوم نہیں ہیں مثلا یہ مفروضہ فرض کر لینا کہ اگر ہم کسی انسان یا حکومت کی مدد یا حمایت کریں تو اس سے یہ لازم آتا ہے کہ وہ انسان یا حکومت شرعی لحاظ سے عین اسلامی ہے یا اسکا الٹ کہ ہم کسی انسان یا حکومت کی حمایت یا مدد نہ کریں تو اس سے یہ لازم آتا ہے کہ وہ انسان یا حکومت شرعی لحاظ سے غیر اسلامی ہے۔
یہ مفروضہ بہت بڑا دھوکا ہے حقیقت میں کسی انسان یا حکومت کا عین اسلامی ہونے کا معیار اسکا توحید اور شریعت پہ عمل سے پتا چلتا ہے نہ کہ اس سے کہ کون اسکی مدد یا حمایت کر رہا ہے کیونکہ شرعی لحاظ سے بعض دفعہ مندرجہ ذیل دو صورتیں بھی جائز ہوتی ہیں۔
2.1۔ کسی غیر اسلامی شخص یا حکومت کی کسی خاص مصلحت کے تحت حمایت یا مدد کی جائے۔
مثلا رسول اللہ ﷺ کے دور میں روم اور فارس دونوں کافر و مشرک حکومتیں تھیں مگر روم اللہ کو ماننے والے مشرک تھے جبکہ فارس والے ایسے نہیں تھے تو جب روم کو فارس سے شکست ہوئی تو مشرکین خوش ہوئے اور مسلمان غمگین ہوئے تو قرآن میں سورہ روم کے شان نزول کے مطابق صحابہؓ کو یہ خوشخبری دی گئی کہ جلد دوبارہ رومی غالب آئیں گے اس دن مسلمان خوش ہوں گے پس صحابہ کا روم کی حمایت کرنا یہ لازم نہیں کرتا کہ روم عین اسلامی ریاست تھی۔
اسی طرح جب بنو بکر نے قریش مکہ کے ساتھ مل کر بنو خزاعہ کو مارا تو مسلمانوں کے ساتھ معاہدہ ہونے کی وجہ سے انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے پاس مدد کی فریاد کی جس کی وجہ سے فتح مکہ ہوا اب اس سے یہ قطعا لازم نہیں آتا کہ بنو خزاعہ والے عین اسلامی تھے بلکہ وہ تو کافر ہی تھے جنکی رسول اللہ ﷺ نے مدد کی
2.2۔ کسی اسلامی شخص یا حکومت کی کسی خاص مصلحت کے تحت مدد نہ کی جائے۔
مثلا صلح حدیبیہ کی شرائط لکھتے وقت عمرؓ نے اعتراض بھی کیا تھا کہ ہمارے لئے نقصان دہ شرائط ہم کیوں مانیں لیکن رسول اللہ ﷺ کو جو مستقبل کی مصلحت نظر آ رہی تھی وہ عمرؓ کو نہیں سمجھ آئی۔ اسی لئے اس وقت ابو جندل جو ایک مظلوم مسلمان تھے وہ آئے لیکن معاہدے اور مصلحت کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ نے اسکو مشرکین مکہ کو واپس کر دیا اسکی کوئی مدد نہیں کی اب ابو جندل کی مدد نہ کرنا اس بات کو لازم نہیں کرتا کہ ابو جندل غلط تھے اور مشرکین مکہ درست تھے حالانکہ اس وقت تک جہاد بھی فرض ہو چکا تھا
پس اوپر غلط مفروضہ قائم کرنے کی غلط فہمی کی وجہ سے ہمارے ہاں مندرجہ ذیل غالی لوگ پائے جاتے ہیں پہلے وہ لوگ جو اس غلط مفروضے کی وجہ سے سمجھتے ہیں کہ اگر ہم نے ایران کی حمایت یا مدد کر دی تو وہ درست اور عین اسلامی ریاست ثابت ہو جائے گا دوسرے وہ لوگ جو یہ سمجھ لیتے ہیں کہ چونکہ ہم ایران کی مدد اور حمایت کر رہے ہیں پس ثابت ہوا کہ ہمارے نزدیک ایران عین اسلامی ریاست ہے یہ دونوں قسم کے لوگ غلط ہیں۔
کچھ لوگ تو یہ دھوکا بھی دیتے ہیں کہ چونکہ اسرائیل کے خلاف صرف ایران ہی کھڑا ہوا ہے کوئی عرب ملک بشمول سعودیہ کھڑا ہونے کی جرات نہیں کر سکتا پس ایران ہی اسلام کا محافظ اور سچا علمبردار ہے حالانکہ انکو یہ نہیں نظر آتا کہ اس اسلام کے علمبردار کو اسلام کی حفاظت غزہ میں کیوں نہیں آئی جہاں اتنے عرصے سے اسرائیل بمباری کر رہا ہے اور دنیا کا بدترین ظلم کر رہا ہے خود کافر ممالک بھی اسرائیل پہ پابندیاں لگانے کی بات کر رہے ہیں لیکن ایران نے انکی حفاظت نہیں کی اصل میں ایران اب جو اسرائیل پہ حملے کر رہا ہے تو یہ مجبوری میں ہے ایران تو بار بار کہ رہا ہے کہ اسرائیل بمباری روکے تو ہم مذاکرات کے لئے تیار ہیں۔
اسکو ایک مثال سے سمجھتے ہیں اگر کسی دریا کنارے لوگ کھڑے ہوں دریا میں ایک بچہ ڈوب رہا ہو اور مدد کے لئے پکار رہا ہو مگر کوئی اس کی مدد کرنے کے لئے کودنے پہ تیار نہ ہو اس میں کافی دیر گزر جائے اچانک ایک بندے کو دھکا لگے اور وہ دریا میں گر جائے وہ بندہ اس بچے کو بچانے کی بجائے خود اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کرنے لگ جائے اور مدد کے لئے پکارنے لگ جائے اس کو دیکھ کرباہر کھڑا کوئی بندہ یہ کہے کہ دیکھو کتنا بہادر ہے اس بچے کو بچانے کے لئے صرف یہی اکیلا دریا میں کودا ہے یہی اس بچے کا رکھوالا ہے تو ایسے سوچنے والے پہ لعنت کرنی چاہئے۔
یہی حالت ایران کی ہے کہ اتنی دیر سے وہ بچہ (غزہ) ڈوب رہا تھا اس نے نہیں بچایا اب جب اسرائیل نے خود اسکو دریا میں دھکا دیا تو اب بھی اس بچہ (غزہ) کو بچانے کی بات نہیں کر رہا بلکہ منتیں کر رہا ہے کہ اگر اسرائیل بمباری روک دے تو یران مذاکرات کے لئے تیار ہے یعنی ایران پہ بمباری روک دے غزہ پہ چاہے نہ روکے پس یہ بات تو کلیئر ہے اگر ہم شرک و صحابہ کی گستاخی کو ایک طرف بھی رکھ دیں پھر بھی ایران کو اسلام کا رکھوالا کہنے کا سوچا بھی نہیں جا سکتا۔
خلاصہ: ہم نے دو چیزوں کا خیال رکھنا ہے کہ ایران کی مدد اور حمایت کرنا اس صورتحال میں بالکل درست اور جائز ہے لیکن یہ تب تک جائز ہے جب ہم پہلے یہ کلیئر کر دیں کہ ایران نہ اسلام کا رکھوالا ہے نہ عین اسلامی ریاست ہے۔
فضیلۃ الباحث ارشد محمود حفظہ اللہ
فلحال اس موضوع پر آپ نے تبصرہ کردیا ہے، یہ معاملہ اتنا آسان نہیں ہے، جس ملک نے اتنا مسلمانوں اور سنیوں کا قتل کیا ہے، آپ نے دو جملوں میں برابر کردیا ہے، یہ جو کچھ چل رہا ہے، یہ بہت بڑا گیم ہے، اس حوالے سے ہم کچھ نہیں کہہ سکتے ہیں۔
وَ مَكَرُوۡا وَمَكَرَاللّٰهُؕ وَاللّٰهُ خَيۡرُ الۡمَاكِرِيۡنَ،
اختتام کیا ہے کہ
“اللهم اهلک الظالمین بالظالمین”
ہماری کل بھی یہ دعا تھی، آج بھی یہ دعا ہے۔
فضیلۃ الشیخ فیض الابرار شاہ حفظہ اللہ
معذرت شیخ کہ آپ کو مجھ سے تکلیف پہنچی میں دل سے معذرت کرتا ہوں، البتہ محترم شیخ مجھے بہت بڑی حیرت ہوئی کہ آپ نے جب کہا کہ یہ گروپ سوال جواب کے لئے ہے اسکو سوال جواب تک رہنے دیجئے۔
واللہ مجھے بالکل نہیں سمجھ آ رہی ہے کہ آپ کو اس میں سوال جواب کیوں نظر نہیں آیا یہ سوال ہی تھا اور اسی سوال کا میں نے جواب ہی دیا ہے کہ کیا ہمیں ایران کی حمایت کرنی چاہئے یا نہیں واللہ واللہ مجھے اتنی حیرت کبھی نہیں ہوئی جتنی آپ کے اس اعتراض پہ ہو رہی ہے کہ یہ سوال و جواب کا گروپ ہے پھر بار بار مجھے یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ اس میں سوال اور جواب کے علاوہ کیا بات ہے۔
ہاں البتہ اس سوال میں جو ابہام تھا کہ یہ سوال کن کی طرف سے ہے میں نے اسکی پہلے تفصیل بیان کی اور پھر اسی کا جواب دیا ہے۔
دوسری بات کہ میں نے کب کہا ہے کہ ایران درست ہے یا اسنے اتنے عرصہ سے کوئی اچھے کام کیے ہیں میں نے تو اوپر بالکل کھل کر لکھا ہے کہ یہ ایران قطعا اسلام کا علمبردار نہیں نہ یہ اسلام کے لئے کر رہا ہے میں نے تو صرف یہ لکھا ہے کہ شریعت میں کسی غلط انسان یا غلط حکومت کی حمایت یا طرفداری یا مدد کرنا بھی شریعت میں جائز ہو سکتا ہے اور اس پہ میں نے دلائل دیئے ہیں۔
اور آخر میں یہ بھی لکھا ہے کہ یہ مدد صرف تب کی جائے جب آپ کو پہلے یہ کلیئر ہو جائے کہ یہ ایران بھی اسرائیل کی طرح بدمعاش اور غیر اسلامی نظریات کا حامل ہے البتہ فی الوقت ایران اور اسرائیل میں ہمیں ایران کے ساتھ مل کر اسرائیل کو ختم کرنا پڑے تو کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہئے۔
بالکل ایسے ہی جیسے اھل حدیث جمہوریت والے علی ہجویری پہ چادر چڑھانے والوں کے ساتھ مل کر جمہوریت میں حصہ لیتے ہیں چونکہ ان کے سامنے کچھ مصلحت ہوتی ہے۔
شیخ آپ کو میرے جواب سے اختلاف ہو سکتا ہے اس پہ آپ اپنی طرف سے دلیل بھی دے سکتے ہیں میرے دلائل کا کھل کر رد بھی کر سکتے ہیں لیکن آپ کا یہ کہنا کہ میں نے سوال جواب کی بجائے کچھ اور لکھا ہے یہ میری سمجھ میں بالکل نہیں آیا اور آپ نے یہ جو لکھا ہے کہ ایران بہت بڑا دشمن ہے تو میں نے اس کا بھی کہیں انکار نہیں کیا۔
آللہ تعالی آپ کو میری اصلاح کے حرص پہ اجر عظیم سے نوازے اور مجھے آپ کی بات سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے امین یا رب العالمین
فضیلۃ الباحث ارشد محمود حفظہ اللہ
اعزکم اللہ
ایران اسرائیل جنگ کا مسئلہ اتنا پیچیدہ ہے اور تہ در تہ مخفیات کے ساتھ ہے کہ ابھی قبل از وقت کچھ کہنا درست نہیں ہے۔
فضیلۃ الشیخ فیض الابرار شاہ حفظہ اللہ
جی یہ بات آپ کی سو فیصد درست ہے میں متفق ہوں یا شیخ۔
فضیلۃ الباحث ارشد محمود حفظہ اللہ
اس حوالے سے مختلف آراء ہیں، کوئی حمایت میں ہے تو کوئی مخالفت میں ہے، بس یہ ہے کہ ایک طرف نام نہاد کلمہ گو ہیں، ایک طرف غیر کلمہ گو ہیں، اس حوالے سے اگر کوئی سیاسی حمایت کرتا ہے تو کوئی قدغن نہیں ہونا چاہیے، کوئی منہجی طور پر حمایت نہیں کرتا ہے، اس حوالے سے سکوت سب سے اچھا ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ