سوال (1498)

کیا اشراق چاشت اور اوابین یہ ایک ہی نماز ہے تینوں اور اگر ایک نماز ہے تو ان کے کیا رکعت وقت کے حساب سے مختلف ہوگی یا بس دو رکعت پڑھ لیں یا چار ہوگ تو کیا پھر اجر سب کا ایک جیسا ہوگا؟

جواب

نماز چاشت:
نماز چاشت کا وقت آفتاب کے خوب طلوع ہو جانے پر شروع ہوتا ہے۔ جب طلوعِ آفتاب اور آغازِ ظہرکے درمیان کل وقت کا آدھا حصہ گزر جائے تو یہ چاشت کے لیے افضل وقت ہے۔ نماز چاشت کی کم از کم چار اور زیادہ سے زیادہ بارہ رکعات ہیں۔

عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا، كَمْ كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي صَلَاةَ الضُّحَى؟ قَالَتْ: «أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ وَيَزِيدُ مَا شَاءَ» [مسلم: 719]

اُم المؤمنین حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چاشت کی چار رکعت پڑھتے تھے اور اﷲ تعالیٰ جس قدر زیادہ چاہتا اتنی پڑھ لیتے تھے۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

«مَنْ صَلَّى الضُّحَى ثِنْتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً بَنَى اللَّهُ لَهُ قَصْرًا مِنْ ذَهَبٍ فِي الجَنَّةِ» [ترمذی: 473]

’’جو شخص چاشت کی بارہ رکعتیں پڑھے گا اﷲ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں سونے کا محل بنائے گا۔‘‘

نمازِ اشراق:
نمازِ اشراق کا وقت طلوعِ آفتاب سے چند منٹ بعد شروع ہوتا ہے۔ اسے نمازِ فجر اور صبح کے وظائف پڑھ کر اٹھنے سے پہلے اسی مقام پر ادا کرنا چاہیے۔ نماز اشراقِ کی رکعات کم از کم دو اور زیادہ سے زیادہ چھ ہیں۔
حدیث مبارکہ میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ:

«مَنْ صَلَّى الغَدَاةَ فِي جَمَاعَةٍ ثُمَّ قَعَدَ يَذْكُرُ اللَّهَ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ، ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ كَانَتْ لَهُ كَأَجْرِ حَجَّةٍ وَعُمْرَةٍ» ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «تَامَّةٍ تَامَّةٍ تَامَّةٍ [ترمذی: 586 قال الألباني: حسن]

’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص صبح کی نماز باجماعت پڑھ کر طلوع آفتاب تک بیٹھا اللہ کا ذکر کرتا رہا پھر دو رکعت نماز (اشراق) ادا کی اس کے لئے کامل (و مقبول) حج و عمرہ کا ثواب ہے حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لفظ تامۃ ’’کامل‘‘ تین مرتبہ فرمایا۔

نمازِ اوّابین:
صلاۃ اوّابين چاشت كى نماز يعنى صلاۃ ضحىٰ ہے، جو سورج اونچا ہونے اور تقريباً ظہر كے قريب دو يا چار يا چھ يا آٹھ ركعت پڑھى جاتى ہے، اور اسے گرمى ہونے تک مؤخر كرنا افضل ہے، اس كى دليل يہ ہے كہ:
زيد بن ارقم رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم قباء والوں كى طرف گئے تو وہ لوگ نماز ادا كر رہے تھے، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

“صَلاةُ الأَوَّابِينَ إِذَا رَمِضَتْ الْفِصَالُ” [رواه مسلم 1238]

“نماز اوّابين اس وقت ہے جب اونٹ كے بچے كے پاؤں ريت كے گرم ہونے سے جليں”
اور مسند احمد كى روايت ميں ہے كہ:
زيد بن ارقم رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:
“نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سورج نكلنے كے بعد مسجد قباء آئے يا مسجد قباء ميں داخل ہوئے تو لوگ نماز ادا كر رہے تھے، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

“إِنَّ صَلاةَ الأَوَّابِينَ كَانُوا يُصَلُّونَهَا إِذَا رَمِضَتْ الْفِصَالُ”

“نماز اوّابين اس وقت ادا كرتے تھے جب اونٹ كے بچوں كے قدم گرمى كى شدت سے ريت گرم ہونے سے جليں ”
اور مسلم كى ايک روايت ميں ہے كہ قاسم شيبانى زيد بن ارقم رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كرتے ہيں كہ زيد بن ارقم رضى اللہ تعالى عنہ نے كچھ لوگوں كو چاشت كى نماز ادا كرتے ہوئے ديكھا تو كہنے لگے كيا انہيں علم نہيں كہ اس وقت كے علاوہ نماز افضل ہے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا ہے:

“إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ صَلاةُ الأَوَّابِينَ حِينَ تَرْمَضُ الْفِصَالُ” [صحيح مسلم : 1237]

“نماز اوّابين اس وقت ہے جب گرمى كى شدت سے ريت گرم ہونے كى بنا پر اونٹ كے بچوں كے قدم جليں”
امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان:” نماز اوّابين اس وقت ہے جب گرمى كى شدت سے ريت گرم ہونے كى بنا پر اونٹ كے بچوں كے قدم جليں” ترمض تاء اور ميم پر زبر ہے، اور الرمضاء: اس ريت كو كہتے ہيں جو سورج كى وجہ سے گرم ہو چكى ہو، يعنى جب اونٹ كے چھوٹے بچوں كے قدم جليں ( تو وہ زمين گرم ہونے كى بنا پر اپنے پاؤں اٹھائے اور زمين پر ركھے۔۔

فضیلۃ الباحث کامران الہیٰ ظہیر حفظہ اللہ

نماز اشراق، چاشت یا الضحی اور اوابین یہ ایک ہی نماز کے مختلف اوقات میں پڑھی جانے کی وجہ مختلف نام ہیں۔
اس نماز کا وقت سورج کے ایک نیزے تک بلند ہو جانے سے شروع ہو کر زوال آفتاب تک رہتا ہے، یہ نماز اگر آپ انہیں جلد ادا کر لیں، یعنی سورج کے نیزے کے برابر بلند ہونے کے بعد ادا کریں تو یہ نمازِ اشراق ہے اور اگر یہ نماز درمیانے وقت میں ادا کریں تو یہ نماز الضحی یا چاشت کہلاتی ہے، اور اگر آخر وقت میں یعنی سورج کے خوب بلند ہو جانے کے بعد اور گرمی کی شدت کے وقت یہ نماز ادا کی جائے تو اسے اوابین کہتے ہیں۔ “اوابين” کی نماز اس وقت ہوتی ہے جب گرمی سے اونٹ کے دودھ چھڑائے جانے والے بچوں کے پاؤں جلنے لگتے ہیں ، نماز مغرب اور عشاء کے درمیان پڑھے جانے والے نوافل کو صلاۃ الاوابین کہنا کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں، اس نماز کی کم از کم دو رکعت اور زیادہ سے زیادہ آٹھ رکعت ہیں، ایک روایت میں بارہ رکعت کا ذکر ہے۔

“مَنْ صَلَّى الضُّحَى ثِنْتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً بَنَى اللَّهُ لَهُ قَصْرًا مِنْ ذَهَبٍ فِي الْجَنَّةِ” [ترمذی: 473، ابن ماجہ: 1380]

لیکن اسے امام نووی، الشیخ البانی، الشیخ زبیر علی زئی اور شعیب ارناؤط وغیرہ نے ضعیف قرار دیا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب

فضیلۃ العالم عبدالرحیم حفظہ اللہ

نماز ایک ہی ہے۔
اشراق کی نماز اول وقت کی ہے جو سورج نکلنے کے تقریبا بقول ابن باز رحمۃ اللہ علیہ 15 یا 20 منٹ بعد ادا کی جاتی ہے،ابن عثیمین 12 منٹ بتاتے ہیں۔
عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں اول وقت میں نماز کا ذکر ہے اور اس کی فضیلت کا بیان ہے، صحیح مسلم میں
اور اوابین افضل وقت میں پڑھی گئی نماز کا نام ہے اور یہ اس وقت ہے جب ریگستان میں اونٹنی کے بچے کے پاؤں جلیں۔
اماں جی عائشہ سے اتا ہے مصنف میں کہ وہ اشراق کے بعد سو جاتی اور جب سورج کی گرمی کافی زیادہ ہو جاتی تب نماز پڑھتیں۔
صحیح مسلم کے اندر صحابہ اور نبی علیہ الصلوۃ والسلام کا عمل محفوظ ہے یہ وہ سورج کے طلوع ہونے تک نماز فجر کے بعد بیٹھ کر ذکر کرتے، اس کے بعد الفاظ ہیں کہ پھر اٹھ کھڑے ہوتے نماز پڑھنے کا ذکر نہیں ہے۔
یعنی عملا نبی علیہ السلام سے اول وقت میں نماز پڑھنا نہیں آیا عمومی روایات سے یہ ہی ثابت ہوتا ہے کہ افضل وقت میں نماز پڑھتے، یہ جو فضیلت بیان ہوئی ہے کہ مکمل حج اور عمرہ کا ثواب ملتا ہے یہ روایت ثابت نہیں۔

فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ

سائل: اس میں اس بات کی وضاحت بھی کر دیں کہ دو رکعتیں اشراق کے ٹائم میں پڑھ لیں، دو پھر تھوڑا چاشت کے ٹائم پڑھ لیں، دو اوابین کے ٹائم میں پڑھ لیں تو کیا ایسا بھی ہو سکتا ہے ایسا بھی پڑھ سکتے ہیں؟
جواب: اس کا اہتمام کرکے یہ طریقہ اپنانا کچھ تکلفات پر مبنی محسوس ہوتا ہے، چونکہ نام مختلف ہیں نماز ایک ہی ہے، اس لیے خود کو اتنے تکلفات میں ڈالنے کی ضرورت نہیں ہے۔
اس سے بہتر ہے کہ تینوں اوقات میں سے جو وقت آسانی سے میسر آئے اس وقت یہ نماز پڑھ لی جائے۔
مثلا کبھی اشراق کے وقت، کبھی چاشت کے اور کبھی اوابین کے وقت پڑھیں۔ اس طرح آسانی بھی رہے گی اور تمام اوقات پر عمل بھی ہو جائے گا۔

فضیلۃ العالم عبدالرحیم حفظہ اللہ

سوال: نماز اشراق اور چاشت میں کوئی فرق ہے یہ سب ایک ہی نماز کے نام ہیں بس اوقات مختلف ہیں۔

جواب: چاشت کو ضحی کہا جاتا ہے، سب کا قریب قریب وقت اور معنی ہے، اسی طرح اوابین بھی ہے۔

فضیلۃ العالم اکرام اللہ واحدی حفظہ اللہ

سائل: وضاحت درکار ہے جو فجر کے بعد اسی جگہ بیٹھ کر سورج طلوع ہونے کے ساتھ پڑھی جاتی ہے ، وہ کونسی ہے اور جو آٹھ بجے کے بعد پڑھی جاتی وہ کونسی ہے۔

جواب: اشراق، اس کے بعد اوابین، اس کے بعد ضحی یا چاشت ہے۔

فضیلۃ العالم اکرام اللہ واحدی حفظہ اللہ

 نماز ضحی،اشراق کے لئے دیکھے (صحیح البخاری: 1176، 1178) (صحیح مسلم: 719) ﺑﺎﺏ ﻋﺪﺩ ﺭﻛﻌﺎﺕ اﻟﻀﺤﻰ، سنن ابودود:(1285، 1286)

اس کے علاوہ کئی کتب احادیث میں اس کا ذکر ہے۔

یاد رکھیں اس ایک ہی  نماز کے مختلف اوصاف کے سبب مختلف نام ہیں۔

(1) اشراق سورج طلوع ہونے کے وقت کو کہتے ہیں۔

(2) ضحی روشنی ہونے کی وجہ سے کہتے ہیں۔

جیسے قرآن کریم میں ہے۔

“وَالضُّحَىٰ” قسم ہے دھوپ چڑھنے کے وقت کی۔ (سورۃ الضحی: 1)

(3) اوابین اس  وقت کو کہتے ہیں  جب اونٹ کے بچے کے پاؤں جلنے لگ جائیں، ( یہ وضاحت عرب کی گرم سرزمین کو پیش نظر رکھ کر بیان ہوئی ہے)۔

نماز ضحی اور اشراق کو ہی صلاۃ الأوابين کہا گیا ہے۔

دیکھیے صحیح ابن خزیمہ: 1224۔ هذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ

سائل: محترم انکا طریقہ بھی بتادیں اشراق ہو تو کتنی رکعت روشنی ہو جانے کے بعد کتنی رکعت اور جب اوابین ہو جائے تب کتنی رکعت۔

اور واضع کردیں کہ یہ نماز ایک ہی دفعہ پڑھنی یے یا تینوں ٹائم بھی پڑھ سکتے ہیں، روشنی کے ہوجانے کو ضحی اور چاشت کہتے ہیں۔

جواب: محترم بھائی یہ ایک ہی نماز کے مختلف نام ہیں، جب نماز ایک ہے تو رکعات و طریقہ بھی ایک ہی ہے، صرف وقت کے اعتبار سے افضل وقت وہ ہے جسے ہم نے تیسرے نمبر پر ذکر کیا ہے۔

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ

سائل: شیخ محترم دو رکعت پڑھنی ہیں یا چار  بعض سورج طلوع ہوتے دو پڑھتے ہیں بعد میں چار پڑھتے ہیں۔

جواب: میرے علم کے مطابق اس نماز کی  ایک سلام سے چار رکعات پڑھنا ثابت نہیں ہے۔ والله أعلم بالصواب

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ

سوال: نماز اشراق، نماز چاشت اور نماز اوابین کونسی نمازیں ہیں اور ان کا ٹائم کیا ہے اور ان کی رکعتیں کتنی کتنی ہیں ٹائم کے حساب رکعتیں بھی تبدیل ہو جاتی ہیں۔

جواب: راجح ترین قول کے مطابق یہ ساری نمازیں ایک ہی ہیں۔ ان میں جو فرق کیا جاتا ہے وہ اوقات کے اعتبار سے کیا جاتا ہے۔ سورج طلوع ہوتے ہی اگر پڑھ لی جائے تو اسے اشراق کہتے ہیں۔ جب سورج تھوڑا سا بلند ہو جائے تو اسے چاشت کہا جاتا ہے۔ جب سورج اتنا بلند ہو جائے کہ زمین گرم ہو جائے تو اسے اوابین کہتے ہیں، اور اس کو ایک اور نام بھی دیا جاتا ہے: صلاۃ الضحیٰ۔ اور صحیح بات یہ ہے کہ یہ تمام نمازیں بنیادی طور پر ایک ہی ہیں۔ اب یہ نہیں ہے کہ آپ دو رکعت اشراق پڑھیں، دو چاشت، دو ضحی اور دو اوابین۔ یہ دراصل دو رکعت ہیں جن کو آپ نے سورج طلوع ہونے کے بعد سے لے کر زوال سے پہلے پہلے کسی بھی وقت ادا کرنا ہوتا ہے۔”

فضیلۃ الشیخ عبد الرزاق زاہد حفظہ اللہ

سوال: درج ذیل سوال کا تفصیلی و مفصل دلائل کے ساتھ جواب مطلوب ہے۔

نماز اشراق/ چاشت/ ضحیٰ۔ کیا یہ ایک ہی نماز ہے؟ اس کا وقت اور طریقہ کار کیا ہے نیز رکعات کتنی ہیں؟

اگر یہ الگ الگ نمازیں ہیں تو ان کی بھی اسی طرح تفصیل مطلوب ہے۔

جواب: جب سورج نکلتے وقت جو ممنوع وقت ہوتا ہے (احتیاطا 5,10) منٹ تو اس کے فورا بعد سے لے کر زوال سے پہلے تک پڑھ سکتے ہیں۔

اشراق، چاشت، صلاة اوبین، صلاة الضحی، یہ ایک ہی نماز کے مختلف نام ہیں۔

اس کی آٹھ رکعات تک ثابت ہیں۔ (مسند احمد: 12130، سندہ، صحیح)

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

اس حوالے سے شیخ غلام مصطفیٰ ظہیر امن پوری حفظہ اللہ کی ایک کتاب، “مسنون نفی نمازیں” کے صفحہ: 106-118 تک، میں تفصیل درج ہے۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم باالصواب

فضیلۃ الباحث ابو زرعہ احمد بن احتشام حفظہ اللہ

الاشراق اور الضحیٰ(چاشت) اور الأوّابین  کی وضاحت،اور ایک مشہور و معروف حدیث کے ضعف کا بیان جسے ابھی تک بعض حضرات صحیح سمجھتے ہیں۔

یہ اصطلاحات بظاہر لگتا ہے کہ مختلف نمازوں کے نام ہے،حالانکہ ایسا نہیں ہے۔

مختصر بات یہ ہے کہ سورج کے طلوع ہونے سے لے کر زوال آفتاب (شمس) سے تھوڑی دیر پہلے تک اس دورانیہ کو عربی میں (ضُحیٰ) اور فارسی و اردو میں (چاشت) کہا جاتا ہے۔

روشنی کا پھیلنا، سورج کی شعاعوں کا نکلنا اس کو عرب لوگ اشراق اور صبح کے ناشتے کا وقت (تقریباً ۹ بجے صبح)،کو ضحی اور صبح نو بجے کے بعد سے لے کر زوال سے کچھ دیر پہلے تک جس وقت گرمی شدت اختیار کرتی اس کو اوّابین کہتے ہیں۔

محدثین اور مفسرین کرام رحمہم اللہ انہیں مختلف اوقات کو مانتے ہیں لیکن صرف ایک ہی نماز کا حکم لگاتے ہیں۔

اگر کوئی شخص ان تینوں اوقات میں وضوء کر کے کم از کم دو رکعت نماز پڑھے تو وہ بہترین عمل ہے،اور اگر گرمی کی شدت  (اوابین) میں عمل پیرا ہے تو وہ نورٌ علی نور ہوگا اور حدیث کی روشنی میں یہی احسن و اعلیٰ و ارفع ہے، جو کہ آگے آرہا ہے۔ اور اگر ہمیشگی نہیں کرتا یا ایک ہی پر عمل پیرا ہے تو وہ بھی بہترین ہے اور باقی اوقات کو چھوڑنے یعنی عمل نہ کرنے کی وجہ سے گنہگار نہیں ہوگا ان شاءاللہ الرحمن۔

اصطلاحات کے بارے میں وضاحت

اگر سورج کی نکلنے کے بعد نماز پڑھی جائے تو اس کو(نماز اشراق)، اور اگر کُچھ دیر بعد پڑھا جائے تو اس کو(نماز چاشت)، اور اگر سورج کی گرمی کی شدت میں پڑھی جائے تو اسے(نماز اوابین) کہتے ہیں۔

اشراق:

 {وَالْإِشْرَاقِ}: أَوَّلِ النَّهَارِ، (ص:18)غريب القرآن

طلوع، روشنی کا پھیلنا، سورج کی شعاعوں کا نکلنا

تابانی، چمکنا

طلوع آفتاب سے تمازت تک کا وقت، سورج نکلنے کے بعد کا وقت

وہ نماز جو سوا نیزے سورج چڑھنے پر پڑھی جاتی ہے۔

صفائے باطن کی وجہ سے روشن ضمیری

کشف، الہام

بغیر کسی خارجی زریعہ کے ایک دل یا جذبے کا اثر دوسرے پر پڑنا یا ڈالنا، ٹیلی پیتھی

صفاے باطن کے باعث مکاشفے اور مراقعے کے ذریعہ دور ہی سے تعلیم و تعلم

(تصوف) قلب کا نور محبت سے منور ہو جانا… المعانى اردو

الضحیٰ:

ضحي: ضَحِيَ يَضْحَى اِضْحَ ضَحْواً وضُحُوّاً وضَحاً [ضحو]: أصابه حرُّ الشَّمس …..وَأَنَّكَ لاَ تَظْمَأُ فِيهَا وَلاَ تَضْحَى.

برزَ للشَّمس.

عرِقَ.

أكل في الضُّحى.

تِ اللَّيلةُ: خَلَتْ من الغيم.

للشَّمس ضَحاءً: بَرَز… قاموس المحيط

چاشت یا صبح کے ناشتے کا وقت (تقریباً ۹ بجے صبح)، وہ کام جو چاشت کے وقت کیا جائے..

المعانی اُردو

الْأوَّابِين:

كلمة أصلها الاسم (أوَّابٌ) في صورة جمع مذكر سالم وجذرها (ءوب) وجذعها (ءواب) وتحليلها (ال + أواب + ين). انظر معنى أوَّابٌ

أَوَّاب:

[اسم] بہت لوٹنے والا، بہت توبہ کرنیوالا (2) سقا۔جمع اوّابین

المعانی۔۔۔

نماز چاشت کی فضیلت اور تعداد رکعات:

رکعات کم از کم دو،زیادہ سے زیادہ لا حدّلہ

(1)… دو رکعت مع فضیلت:

عَنْ أَبِي ذَرٍّ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ قَالَ يُصْبِحُ عَلَى كُلِّ سُلَامَى مِنْ أَحَدِكُمْ صَدَقَةٌ فَكُلُّ تَسْبِيحَةٍ صَدَقَةٌ وَكُلُّ تَحْمِيدَةٍ صَدَقَةٌ وَكُلُّ تَهْلِيلَةٍ صَدَقَةٌ وَكُلُّ تَكْبِيرَةٍ صَدَقَةٌ وَأَمْرٌ بِالْمَعْرُوفِ صَدَقَةٌ وَنَهْيٌ عَنْ الْمُنْكَرِ صَدَقَةٌ وَيُجْزِئُ مِنْ ذَلِكَ رَكْعَتَانِ يَرْكَعُهُمَا مِنْ الضُّحَى. (صحيح مسلم: 1671)

ترجمہ: حضرت ابو زر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی کریم ﷺ سے روایت کی کہ آپ ﷺ نے فرمایا: صبح کو تم میں سے ہر ایک شخص کے ہر جوڑ پر ایک صدقہ ہوتا ہے۔ پس ہر ایک تسبیح («سبحان الله» کہنا) صدقہ ہے۔ ہر ایک تحمید («الحمد لله» کہنا) صدقہ ہے، ہر ایک تہلیل («لا اله الا الله» کہنا) صدقہ ہے ہر ایک تکبیر («الله اكبر» کہنا) بھی صدقہ ہے۔ (کسی کو) نیکی کی تلقین کرنا صدقہ ہے اور (کسی کو) برائی سے روکنا بھی صدقہ ہے۔ اور ان تمام امور کی جگہ دو رکعتیں جو انسان چاشت کے وقت پڑھتا ہے کفایت کرتی ہیں۔

(2) آٹھ رکعات:

(1)صحیح مسلم حدیث نمبر: 765

أَنَّ أُمَّ هَانِئٍ بِنْتَ أَبِي طَالِبٍ حَدَّثَتْهُ أَنَّهُ لَمَّا کَانَ عَامُ الْفَتْحِ أَتَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ بِأَعْلَی مَکَّةَ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَی غُسْلِهِ فَسَتَرَتْ عَلَيْهِ فَاطِمَةُ ثُمَّ أَخَذَ ثَوْبَهُ فَالْتَحَفَ بِهِ ثُمَّ صَلَّی ثَمَانَ رَکَعَاتٍ سُبْحَةَ الضُّحَی

ترجمہ: ام ہانی بنت ابی طالب سے روایت ہے کہ وہ فتح مکہ کے سال رسول اللہ ﷺ کے پاس اس وقت حاضر ہوئیں جب آپ ﷺ مکہ کے بلند حصہ پر تھے رسول اللہ ﷺ غسل کے لئے کھڑے ہوئے تو آپ ﷺ پر حضرت فاطمہ نے پردہ کیا پھر آپ ﷺ نے غسل کے بعد اپنے اوپر ایک کپڑا لپیٹا پھر آپ ﷺ نے چاشت کی آٹھ رکعات پڑھیں۔

(2)صحیح مسلم حدیث نمبر: 766

وَقَالَ فَسَتَرَتْهُ ابْنَتُهُ فَاطِمَةُ بِثَوْبِهِ فَلَمَّا اغْتَسَلَ أَخَذَهُ فَالْتَحَفَ بِهِ ثُمَّ قَامَ فَصَلَّی ثَمَانَ سَجَدَاتٍ وَذَلِکَ ضُحًی

مفھوم: ام ہانی سے روایت ہے کہ آپ ﷺ کی بیٹی فاطمہ نے آپ ﷺ کے لئے کپڑے کے ساتھ پردہ کیا جب آپ ﷺ غسل کرچکے تو آپ ﷺ نے ایک کپڑا لپیٹ کر نماز چاشت کی آٹھ رکعتیں ادا کیں۔

(3) چار اور چار سے زائد:

صحیح مسلم حدیث نمبر: 1663

مُعَاذَةُ أَنَّهَا سَأَلَتْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا کَمْ کَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي صَلَاةَ الضُّحَی قَالَتْ أَرْبَعَ رَکَعَاتٍ وَيَزِيدُ مَا شَائَ

ترجمہ: معاذہ بیان کرتی ہیں کہ انہوں نے حضرت عائشہ ؓ سے پوچھا کہ رسول اللہ چاشت کی نماز کی کتنی رکعات پڑھا کرتے تھے انہوں نے فرمایا چار رکعتیں اور جتنی چاہتے زیادہ پڑھتے۔

نماز اوابین:

(1)صحیح مسلم حدیث نمبر: 1746

عَنْ الْقَاسِمِ الشَّيْبَانِيِّ أَنَّ زَيْدَ بْنَ أَرْقَمَ رَأَی قَوْمًا يُصَلُّونَ مِنْ الضُّحَی فَقَالَ أَمَا لَقَدْ عَلِمُوا أَنَّ الصَّلَاةَ فِي غَيْرِ هَذِهِ السَّاعَةِ أَفْضَلُ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ صَلَاةُ الْأَوَّابِينَ حِينَ تَرْمَضُ الْفِصَالُ

ترجمہ: قاسم شیبانی فرماتے ہیں کہ حضرت زید ؓ بن ارقم ؓ نے ایک جماعت کو دیکھا کہ وہ لوگ چاشت کی نماز پڑھ رہے ہیں انہوں نے فرمایا کہ لوگوں کو اچھی طرح علم ہے کہ نماز اس وقت کے علاوہ میں افضل ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ صَلَاةُ الْأَوَّابِينَ اس وقت ہے جس وقت اونٹ کے بچوں کے پیر گرم ہوجائیں۔

(2)صحیح مسلم حدیث نمبر: 1747

عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ قَالَ خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَی أَهْلِ قُبَائَ وَهُمْ يُصَلُّونَ فَقَالَ صَلَاةُ الْأَوَّابِينَ إِذَا رَمِضَتْ الْفِصَالُ۔

ترجمہ: زید بن ارقم فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ قبا والوں کی طرف نکلے کہ وہ نماز پڑھ رہے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا صَلَاةُ الْأَوَّابِينَ کا وقت اس وقت ہے کہ جب اونٹ کے بچوں کے پیر جلنے لگ جائیں۔

نوٹ: نماز اشراق کی رکعات اور اس کی فضیلت میں ایک حدیث سنن ترمذی میں موجود ہے جو کہ زور و شور کے ساتھ ہمارے بعض خطباء کرام بیان کرتے ہیں لیکن وہ روایت صحیح نہیں ہے،ابو ظلال ھلال بن ابی ھلال راوی کے وجہ سے ضعیف ہے،امام بخاری،نسائی،وغیرہ رحمھم اللہ اس کو ثقہ نہیں سمجھتے تھے۔۔۔یہاں تک کہ امام ذھبی رحمہ اللّٰہ نے الکاشف میں ذکر کیا ہے کہ سوائے ابن حبان باقی ائمہ کرام ابو ظلال کو ضعیف کہتے تھے۔

امام عقیلی رحمہ الله کے نزدیک بھی یہی بات ہے۔

الضعفاء الکبیر للعقیلی 4 /345

ان کے علاوہ درج ذیل آئمہ محدثین نے بھی جرح کر رکھی ہے:

امام یحیی بن معین رحمہ اللہ

امام ابن حبان رحمہ الله

امام ابن عدی رحمہ الله

امام ابو احمد الحاکم رحمہ الله

امام ذھبی رحمہ الله

حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ الله

اس کے علاوہ کئی آئمہ نے جرح کی ہے.

سنن الترمذي: (باب ذکر ما یستحب من الجلوس فی المسجد بعد صلاۃ الصبح، رقم الحدیث: 586، 371/2، ط: دار الحدیث)

“عن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من صلى الغداة في جماعة ثم قعد يذكر الله حتى تطلع الشمس، ثم صلى ركعتين كانت له كأجر حجة وعمرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: تامة تامة تامة”.

ترجمہ: جو شخص فجر کی نماز جماعت سے ادا کرے پھر اپنی جگہ بیٹھ کر اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتا رہے،یہاں تک کہ سورج طلوع ہوجائے، پھر اس کے بعد دو رکعت پڑھے تو اس کو کامل حج و عمرہ کا ثواب ملے گا۔

واللہ اعلم و الیہ التکلان!

العبد الفقیر ابو عبداللہ عبدالقدوس قدسی قدس اللہ سرہ

اگرچہ اس کا جواب ہوگیا ہے، لیکن بعض اہل علم کا رجحان ہے کہ اشراق سورج نکلنے کے بعد دو رکعات پڑھی جاتی ہیں، وہ ہیں، اور شیخ مبشر احمد ربانی رحمہ اللہ نے بھی لکھا ہے، ہمارا بھی رجحان یہ ہے، اگر اس کو بعد میں لیٹ کرکے پڑھا جائے تو یہ ضحی، چاشت اور اوابین بھی ہے، بعض نے اشراق کو الگ رکھا ہے۔

درج ذیل لنک ملاحظہ ہو۔

نماز کی صفت کا بیان, حدیث نمبر:218, بلوغ المرام, https://islamicurdubooks.com/hadith/hadith-.php?bookid=14&hadith_number=218

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ