سوال (1498)

کیا اشراق چاشت اور اوابین یہ ایک ہی نماز ہے تینوں اور اگر ایک نماز ہے تو ان کے کیا رکعت وقت کے حساب سے مختلف ہوگی یا بس دو رکعت پڑھ لیں یا چار ہوگ تو کیا پھر اجر سب کا ایک جیسا ہوگا؟

جواب

نماز چاشت :
نماز چاشت کا وقت آفتاب کے خوب طلوع ہو جانے پر شروع ہوتا ہے۔ جب طلوعِ آفتاب اور آغازِ ظہرکے درمیان کل وقت کا آدھا حصہ گزر جائے تو یہ چاشت کے لیے افضل وقت ہے۔ نماز چاشت کی کم از کم چار اور زیادہ سے زیادہ بارہ رکعات ہیں۔

عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا، كَمْ كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي صَلَاةَ الضُّحَى؟ قَالَتْ: «أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ وَيَزِيدُ مَا شَاءَ» [مسلم : 719]

اُم المؤمنین حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چاشت کی چار رکعت پڑھتے تھے اور اﷲ تعالیٰ جس قدر زیادہ چاہتا اتنی پڑھ لیتے تھے۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

«مَنْ صَلَّى الضُّحَى ثِنْتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً بَنَى اللَّهُ لَهُ قَصْرًا مِنْ ذَهَبٍ فِي الجَنَّةِ» [ترمذی: 473]

’’جو شخص چاشت کی بارہ رکعتیں پڑھے گا اﷲ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں سونے کا محل بنائے گا۔‘‘
نمازِ اشراق :
نمازِ اشراق کا وقت طلوعِ آفتاب سے چند منٹ بعد شروع ہوتا ہے۔ اسے نمازِ فجر اور صبح کے وظائف پڑھ کر اٹھنے سے پہلے اسی مقام پر ادا کرنا چاہیے۔ نماز اشراقِ کی رکعات کم از کم دو اور زیادہ سے زیادہ چھ ہیں۔
حدیث مبارکہ میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ:

«مَنْ صَلَّى الغَدَاةَ فِي جَمَاعَةٍ ثُمَّ قَعَدَ يَذْكُرُ اللَّهَ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ، ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ كَانَتْ لَهُ كَأَجْرِ حَجَّةٍ وَعُمْرَةٍ» ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «تَامَّةٍ تَامَّةٍ تَامَّةٍ [ترمذی: 586 قال الألباني : حسن]

’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص صبح کی نماز باجماعت پڑھ کر طلوع آفتاب تک بیٹھا اللہ کا ذکر کرتا رہا پھر دو رکعت نماز (اشراق) ادا کی اس کے لئے کامل (و مقبول) حج و عمرہ کا ثواب ہے حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لفظ تامۃ ’’کامل‘‘ تین مرتبہ فرمایا ۔۔
نمازِ اوّابین :
صلاۃ اوّابين چاشت كى نماز يعنى صلاۃ ضحىٰ ہے، جو سورج اونچا ہونے اور تقريباً ظہر كے قريب دو يا چار يا چھ يا آٹھ ركعت پڑھى جاتى ہے، اور اسے گرمى ہونے تک مؤخر كرنا افضل ہے، اس كى دليل يہ ہے كہ:
زيد بن ارقم رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم قباء والوں كى طرف گئے تو وہ لوگ نماز ادا كر رہے تھے، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

“صَلاةُ الأَوَّابِينَ إِذَا رَمِضَتْ الْفِصَالُ” [رواه مسلم 1238]

“نماز اوّابين اس وقت ہے جب اونٹ كے بچے كے پاؤں ريت كے گرم ہونے سے جليں”
اور مسند احمد كى روايت ميں ہے كہ:
زيد بن ارقم رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:
“نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سورج نكلنے كے بعد مسجد قباء آئے يا مسجد قباء ميں داخل ہوئے تو لوگ نماز ادا كر رہے تھے، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

“إِنَّ صَلاةَ الأَوَّابِينَ كَانُوا يُصَلُّونَهَا إِذَا رَمِضَتْ الْفِصَالُ”

“نماز اوّابين اس وقت ادا كرتے تھے جب اونٹ كے بچوں كے قدم گرمى كى شدت سے ريت گرم ہونے سے جليں ”
اور مسلم كى ايک روايت ميں ہے كہ قاسم شيبانى زيد بن ارقم رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كرتے ہيں كہ زيد بن ارقم رضى اللہ تعالى عنہ نے كچھ لوگوں كو چاشت كى نماز ادا كرتے ہوئے ديكھا تو كہنے لگے كيا انہيں علم نہيں كہ اس وقت كے علاوہ نماز افضل ہے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا ہے:

“إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ صَلاةُ الأَوَّابِينَ حِينَ تَرْمَضُ الْفِصَالُ” [صحيح مسلم : 1237]

“نماز اوّابين اس وقت ہے جب گرمى كى شدت سے ريت گرم ہونے كى بنا پر اونٹ كے بچوں كے قدم جليں”
امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان: ” نماز اوّابين اس وقت ہے جب گرمى كى شدت سے ريت گرم ہونے كى بنا پر اونٹ كے بچوں كے قدم جليں” ترمض تاء اور ميم پر زبر ہے، اور الرمضاء: اس ريت كو كہتے ہيں جو سورج كى وجہ سے گرم ہو چكى ہو، يعنى جب اونٹ كے چھوٹے بچوں كے قدم جليں ( تو وہ زمين گرم ہونے كى بنا پر اپنے پاؤں اٹھائے اور زمين پر ركھے۔۔

فضیلۃ الباحث کامران الہیٰ ظہیر حفظہ اللہ

نماز اشراق، چاشت یا الضحی اور اوابین یہ ایک ہی نماز کے مختلف اوقات میں پڑھی جانے کی وجہ مختلف نام ہیں۔
اس نماز کا وقت سورج کے ایک نیزے تک بلند ہو جانے سے شروع ہو کر زوال آفتاب تک رہتا ہے ، یہ نماز اگر آپ انہیں جلد ادا کر لیں، یعنی سورج کے نیزے کے برابر بلند ہونے کے بعد ادا کریں تو یہ نمازِ اشراق ہے اور اگر یہ نماز درمیانے وقت میں ادا کریں تو یہ نماز الضحی یا چاشت کہلاتی ہے ، اور اگر آخر وقت میں یعنی سورج کے خوب بلند ہو جانے کے بعد اور گرمی کی شدت کے وقت یہ نماز ادا کی جائے تو اسے اوابین کہتے ہیں۔ “اوابين” کی نماز اس وقت ہوتی ہے جب گرمی سے اونٹ کے دودھ چھڑائے جانے والے بچوں کے پاؤں جلنے لگتے ہیں ، نماز مغرب اور عشاء کے درمیان پڑھے جانے والے نوافل کو صلاۃ الاوابین کہنا کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ، اس نماز کی کم از کم دو رکعت اور زیادہ سے زیادہ آٹھ رکعت ہیں ، ایک روایت میں بارہ رکعت کا ذکر ہے۔

“مَنْ صَلَّى الضُّحَى ثِنْتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً بَنَى اللَّهُ لَهُ قَصْرًا مِنْ ذَهَبٍ فِي الْجَنَّةِ” [ترمذی: 473، ابن ماجہ: 1380]

لیکن اسے امام نووی، الشیخ البانی، الشیخ زبیر علی زئی اور شعیب ارناؤط وغیرہ نے ضعیف قرار دیا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب

فضیلۃ العالم عبدالرحیم حفظہ اللہ

نماز ایک ہی ہے۔
اشراق کی نماز اول وقت کی ہے جو سورج نکلنے کے تقریبا بقول ابن باز رحمۃ اللہ علیہ 15 یا 20 منٹ بعد ادا کی جاتی ہے،ابن عثیمین 12 منٹ بتاتے ہیں
عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں اول وقت میں نماز کا ذکر ہے اور اس کی فضیلت کا بیان ہے ، صحیح مسلم میں
اور اوابین افضل وقت میں پڑھی گئی نماز کا نام ہے اور یہ اس وقت ہے جب ریگستان میں اونٹنی کے بچے کے پاؤں جلیں۔
اماں جی عائشہ سے اتا ہے مصنف میں کہ وہ اشراق کے بعد سو جاتی اور جب سورج کی گرمی کافی زیادہ ہو جاتی تب نماز پڑھتیں۔
صحیح مسلم کے اندر صحابہ اور نبی علیہ الصلوۃ والسلام کا عمل محفوظ ہے یہ وہ سورج کے طلوع ہونے تک نماز فجر کے بعد بیٹھ کر ذکر کرتے ، اس کے بعد الفاظ ہیں کہ پھر اٹھ کھڑے ہوتے نماز پڑھنے کا ذکر نہیں ہے۔
یعنی عملا نبی علیہ السلام سے اول وقت میں نماز پڑھنا نہیں آیا عمومی روایات سے یہ ہی ثابت ہوتا ہے کہ افضل وقت میں نماز پڑھتے ، یہ جو فضیلت بیان ہوئی ہے کہ مکمل حج اور عمرہ کا ثواب ملتا ہے یہ روایت ثابت نہیں

فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ

سائل :
اس میں اس بات کی وضاحت بھی کر دیں کہ دو رکعتیں اشراق کے ٹائم میں پڑھ لیں ، دو پھر تھوڑا چاشت کے ٹائم پڑھ لیں ، دو اوابین کے ٹائم میں پڑھ لیں تو کیا ایسا بھی ہو سکتا ہے ایسا بھی پڑھ سکتے ہیں ؟
جواب :
اس کا اہتمام کرکے یہ طریقہ اپنانا کچھ تکلفات پر مبنی محسوس ہوتا ہے، چونکہ نام مختلف ہیں نماز ایک ہی ہے، اس لیے خود کو اتنے تکلفات میں ڈالنے کی ضرورت نہیں ہے۔
اس سے بہتر ہے کہ تینوں اوقات میں سے جو وقت آسانی سے میسر آئے اس وقت یہ نماز پڑھ لی جائے۔
مثلا کبھی اشراق کے وقت، کبھی چاشت کے اور کبھی اوابین کے وقت پڑھیں۔ اس طرح آسانی بھی رہے گی اور تمام اوقات پر عمل بھی ہو جائے گا۔

فضیلۃ العالم عبدالرحیم حفظہ اللہ