سوال (5500)

ہمیں یہ بھی غلط پڑھایا گیا کہ انصاف ہونا چاہیے۔حالانکہ قرآن میں انصاف کا کوئی تصور نہیں ہے۔ یہ ایک غیر قرآنی اور غیر اسلامی اصطلاح ہے۔ اسلام ہمیں انصاف کا نہیں، عدل کا حکم دیتا ہے۔ “انصاف” دراصل ایک مہذب شکل میں ظلم ہے، یا یوں کہیے کہ یہ ظلم کی مہذب شکل ہے، جو صدیوں سے ہمیں نظامِ عدل کے نام پر پڑھائی، سکھائی اور نافذ کی گئی ہے۔
1:تین لوگ ہیں: ایک طاقتور، ایک درمیانہ، اور ایک کمزور۔
آپ تینوں کو 10، 10 اینٹیں اٹھانے کو کہیں — یہ “انصاف” ہوگا، کیونکہ برابر دیا گیا۔
لیکن طاقتور کو 15، درمیانے کو 10، اور کمزور کو 5 اینٹیں دی جائیں.
تو یہ عدل ہے۔ ہر ایک کو اس کی طاقت کے مطابق ذمہ داری ملی۔
2: تین طلبہ ہیں: ایک اندھا، ایک ذہین، اور ایک جسمانی معذور۔
اگر آپ تینوں کو ایک جیسے سوالات والا پرچہ دیں — تو یہ “انصاف” ہے۔
لیکن دراصل یہ ظلم ہے، کیونکہ سب کی صلاحیتیں برابر نہیں۔
عدل یہ ہے کہ ہر طالب علم کا پرچہ اس کی استعداد کے مطابق ہو۔
3: تین افراد آپ کے پاس آتے ہیں: ایک بچہ، ایک بیمار، اور ایک صحت مند بالغ۔
آپ کے پاس تین روٹیاں، تین دودھ کے پیک، اور تین جوس ہیں۔
اگر آپ تینوں کو ایک ایک چیز دیں تو “انصاف” تو ہو جائے گا — مگر نتیجہ ظلم ہوگا۔
عدل یہ ہے کہ بچہ دودھ لے، مریض جوس لے، اور صحت مند روٹی لے جسے جو ضرورت ہو، وہی دیا جائے۔
4: پاکستان میں ایک رکشے والے کو 2000 روپے کا جرمانہ کیا جائے
اور مرسیڈیز والے کو بھی اتنا ہی —
تو یہ “انصاف” تو ہے، لیکن درحقیقت یہ بھی ظلم ہے۔
رکشے والا راشن کاٹ کر جرمانہ بھرے گا۔
اور مرسیڈیز والا جیب سے نوٹ نکال کر —
یہ کہاں کا انصاف ہے؟ یہاں عدل ہوتا تو جرمانہ آمدنی کے مطابق ہوتا۔
5: فن لینڈ میں واقعی ایسا ہوتا ہے —
جرمانے آمدنی کے حساب سے دیے جاتے ہیں۔
ایک امیر آدمی اگر تیز رفتاری کرے، تو لاکھوں روپے جرمانہ ہوتا ہے
اور ایک مزدور وہی قانون توڑے تو چند یورو کا چالان۔
یہی عدل ہے — سب پر قانون ایک ہو، مگر جزا و سزا ان کی حیثیت کے مطابق ہو۔
ہم سب کو ایک جیسا پرچہ دیتے ہیں، ایک جیسا قانون، ایک جیسا جرمانہ —
اور پھر حیران ہوتے ہیں کہ یہ معاشرہ ظالم کیوں بن گیا۔
یاد رکھیے: برابری ضروری نہیں، ضرورت کے مطابق دینا ضروری ہے۔اور یہی عدل ہے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔

“إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالإِحْسَانِ”

“بے شک اللہ عدل اور احسان کا حکم دیتا ہے۔” (سورہ النحل، آیت 90)
ڈاکٹر وردہ وڑايچ

جواب

میرے خیال میں اس میں پہلی چیز تو یہ درست کر لی جائے کہ انصاف کے لفظ کو مساوات سے بدل دیا جائے وجہ یہ ہے کہ کچھ لوگ اسلام کو جو بدنام کرتے ہیں کہ یہ مرد و زن و مسلم و کافر وغیرہ میں برابری نہیں کرتا تو وہاں انصاف کی بجائے مساوات کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے
دوسرا اس میں زیادہ تر باتیں درست ہیں مگر کچھ میرے خیال میں غلط لگتی ہیں واللہ اعلم
مثلا رکشہ والے کو کم جرمانہ کرنا اور مرسڈیز والے کو زیادہ جرمانہ کرنا اور لوگوں ایک ہی پیپر نہ دینا یعنی جو نالائق ہو اسکو آسان پیپر دینا یہ باتیں درست نہیں ہیں کیونکہ آیت ہے کہ

اِنْ یَّكُنْ غَنِیًّا اَوْ فَقِیْرًا فَاللّٰهُ اَوْلٰی بِهِمَا ۫ فَلَا تَتَّبِعُوا الْهَوٰۤی اَنْ تَعْدِلُوْا ۚ

اگر وہ دولت مند یا محتاج ہیں تو اللہ تعالی تم سے زیادہ ان کا ہمدرد اور خیر خواہ ہے۔ لہذا تم عدل اور انصاف کرنے میں خواہشات نفسانی کی اتباع اور پیروی نہ کرو.

فضیلۃ العالم ارشد حفظہ اللہ