سوال (1187)
کیا اعتکاف کے لیے جامع مسجد کا ہونا ضروری ہے ؟
جواب
جامع مسجد ہونا تو ضروری نہیں ہے ، بس مسجد ہونی چاہیے ، یہ اور بات ہے کہ آج ہر مسجد جامع ہے ، لیکن اعتکاف کے لیے جامع ہونا شرط نہیں ہے ۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جس مسجد میں نماز باجماعت ہوتی ہے اس میں اعتکاف ہو سکتا ہے[صحیح]
اسی طرح ابن مسعود اور ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے ہے۔[صحیح]
حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کا فتویٰ ہے کہ صرف 3 مساجد میں اعتکاف ہو سکتا ہے “مسجد الحرام، مسجد نبوی اور مسجد الاقصی” اور انھوں نے کوفہ کی گرینڈ مسجد میں اعتکاف کرنے والوں پر اعتراض کیا۔[صحیح]
ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ہے کہ اسلام میں سب سے بڑے کام میں سے بدعات ہیں اور محلوں کی مساجد میں اعتکاف بدعت ہے[ضعیف]
اماں جی عائشہ سے ہے کہ اعتکاف نہیں ہے مگر جامع مسجد میں “صحیح یہ ہے کہ یہ کلام زھری کا ہے۔ اس روایت میں اماں جی کا کلام فقط یہ ہے کہ اللہ کے نبی علیہ السلام رمضان کے آخری عشرے میں دس دن اعتکاف کرتے یہاں تک کہ وفات پا گئے اور بعد ان کے امہات بھی اعتکاف کرتیں ۔۔۔ اس سے آگے سارا کلام زھری رحمہ اللہ کا ہے”
جس میں مسجد میں نماز باجماعت اور جمعہ کی نماز ہوتی ہے وہاں اعتکاف ہو سکتا ہے۔”اگر جمعہ نہیں ہوتا تو علماء نے مکروہ سمجھا ہے کیونکہ ایسی صورت میں اسے نماز جمعہ کے لئے دوسری مسجد میں جانا پڑے گا۔اس پر بعض صحابہ کے فتاوی موجود ہیں کہ وہ جمعہ پڑھنے کے لئے امام جمعہ کے پیچھے جا لئے گا”
امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اللہ نے کہا “وانتم عاکفون فی المساجد” مساجد عام بولا گیا اس لئے جس پر مسجد کا اطلاق ہوتا ہے وہاں اعتکاف ہو سکتا ہے۔
نوٹ : پاکستان میں تقریبا اب تمام مساجد اسی طرز پر ہیں کہ ان میں نماز باجماعت اور جمعہ ہوتا ہے۔
سعودیہ اور اس طرح دیگر عرب ممالک میں محلوں میں ایسی مساجد ضرور موجود ہیں کہ ان میں 5 نمازیں ہوتی ہیں لیکن جمعہ نہیں ہوتا، جمعہ بڑی مسجد میں ہوتا ہے۔ تو ایسی مسجد میں جواز ہے لیکن بہتر ہے جمعہ جہاں ہوتا ہے وہاں اعتکاف کر لے تاکہ اسے جمعے کے دن بڑی مسجد میں جمعہ پڑھنے کے لئے نہ جانا پڑے
فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ