سوال          (55)

روافض کی طرف سے اعتراض کیا جاتا ہے کہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ جنگ احد میں فرار ہو گئے تھے اس پر رہنمائی فرمائیں ۔

جواب

سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے بارے شاید غلط فہمی ہوئی ہے ۔ باقی احد میں سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ بات آتی ہے ۔

عثمان بن موہب فرماتے ہیں کہ ایک شخص بیت اللہ کے حج کے لیے آئے تھے۔ دیکھا کہ کچھ لوگ بیٹھے ہوئے ہیں۔ پوچھا کہ یہ بیٹھے ہوئے کون لوگ ہیں؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ قریش ہیں۔ پوچھا کہ ان میں شیخ کون ہیں؟ بتایا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما۔  وہ شخص سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما کے پاس آئے اور ان سے کہا کہ میں آپ سے ایک بات پوچھتا ہوں۔ آپ مجھ سے واقعات بیان کر دیجئیے ۔ اس گھر کی حرمت کی قسم دے کر میں آپ سے پوچھتا ہوں۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ عثمان رضی اللہ عنہ نے غزوہ احد کے موقع پر راہ فرار اختیار کی تھی؟ انہوں نے کہا کہ ہاں صحیح ہے۔ انہوں نے پوچھا آپ کو یہ بھی معلوم ہے عثمان رضی اللہ عنہ بدر کی لڑائی میں شریک نہیں تھے؟ کہا کہ ہاں یہ بھی ہوا تھا۔ انہوں نے پوچھا اور آپ کو یہ بھی معلوم ہے کہ وہ بیعت رضوان “صلح حدیبیہ” میں بھی پیچھے رہ گئے تھے اور حاضر نہ ہو سکے تھے؟ انہوں نے کہا کہ ہاں یہ بھی صحیح ہے۔ اس پر ان صاحب نے اللہ اکبر کہا ، لیکن سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما نے فرمایا کہ یہاں آؤ میں تمہیں بتاؤں گا اور جو سوالات تم نے کئے ہیں ان کی میں تمہارے سامنے تفصیل بیان کر دوں گا۔ احد کی لڑائی میں فرار سے متعلق جو تم نے کہا تو میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی غلطی معاف کردی ہے۔ بدر کی لڑائی میں ان کے نہ ہونے کے متعلق جو تم نے کہا تو اس کی وجہ یہ تھی۔ کہ ان کے نکاح میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی  رقیہ رضی اللہ عنھا تھیں اور وہ بیمار تھیں۔ آپ نے فرمایا تھا کہ تمہیں اس شخص کے برابر ثواب ملے گا جو بدر کی لڑائی میں شریک ہوگا اور اسی کے برابر مال غنیمت سے حصہ بھی ملے گا۔ بیعت رضوان میں ان کی عدم شرکت کا جہاں تک سوال ہے تو وادی مکہ میں عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے زیادہ کوئی شخص ہر دل عزیز ہوتا تو نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  ان کے بجائے اسی کو بھیجتے۔ اس لیے عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو وہاں بھیجنا پڑا اور بیعت رضوان اس وقت ہوئی جب وہ مکہ میں تھے۔  بیعت لیتے ہوئے  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دائیں ہاتھ کو اٹھا کر فرمایا کہ یہ عثمان کا ہاتھ ہے اور اسے اپنے بائیں ہاتھ پر مار کر فرمایا کہ یہ بیعت عثمان کی طرف سے ہے۔ اب جاسکتے ہو۔ البتہ میری باتوں کو یاد رکھنا۔[صحیح البخاری: 4066]

جنگ احد میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا منتشر ہو جانا اگرچہ ایک اتفاقی سانحہ تھا جو مسلمان تیر اندازوں کی غلطی کے باعث پیش آیا تاہم لوگوں کو اس کا سخت ملال تھا، خصوصاً عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نہایت پشیمان تھے، لیکن یہ اتفاقی غلطی تھی، اس لیے اللہ پاک نے وحی کے ذریعہ سے عفو عام کی بشارت دے دی ہے ۔

“وَلَقَدۡ صَدَقَكُمُ اللّٰهُ وَعۡدَهٗۤ اِذۡ تَحُسُّوۡنَهُمۡ بِاِذۡنِهٖ‌ۚ حَتّٰۤی اِذَا فَشِلۡتُمۡ وَتَـنَازَعۡتُمۡ فِى الۡاَمۡرِ وَعَصَيۡتُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ مَاۤ اَرٰٮكُمۡ مَّا تُحِبُّوۡنَ‌ؕ مِنۡكُمۡ مَّنۡ يُّرِيۡدُ الدُّنۡيَا وَمِنۡكُمۡ مَّنۡ يُّرِيۡدُ الۡاٰخِرَةَ  ۚ ثُمَّ صَرَفَكُمۡ عَنۡهُمۡ لِيَبۡتَلِيَكُمۡ‌ۚ وَلَقَدۡ عَفَا عَنۡكُمۡ‌ؕ وَ اللّٰهُ ذُوۡ فَضۡلٍ عَلَى الۡمُؤۡمِنِيۡنَ”. [سورة آل عمران: 152]

’’اور بلاشبہ یقینا اللہ نے تم سے اپنا وعدہ سچا کردیا، جب تم انھیں اس کے حکم سے کاٹ رہے تھے، یہاں تک کہ جب تم نے ہمت ہار دی اور تم نے حکم کے بارے میں آپس میں جھگڑا کیا اور تم نے نافرمانی کی، اس کے بعد کہ اس نے تمہیں وہ چیز دکھا دی جسے تم پسند کرتے تھے۔ تم میں سے کچھ وہ تھے جو دنیا چاہتے تھے اور تم میں سے کچھ وہ تھے جو آخرت چاہتے تھے، پھر اس نے تمہیں ان سے پھیر دیا، تاکہ تمہیں آزمائے اور بلاشبہ یقینا اس نے تمہیں معاف کردیا اور اللہ مومنوں پر بڑے فضل والا ہے‘‘۔

اس آیت ان تمام صحابہ کو اللہ تعالیٰ نے معاف کردیا جن کے احد کے میدان میں قدم ڈگمگائے تھے ۔ جب اللہ تعالٰی نے معاف کردیا تو لوگ کون ہوتے ہیں جو صحابہ پر باتیں کریں ۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر  حفظہ اللہ