سوال (6093)

مفتی طارق مسعود صاحب کا ایک استدلال یہ ہے کہ خون نجس ہے اور نجس چیز جب کپڑوں کو لگ جائے تو نماز نہیں ہوتی ہے؟

جواب

مفتی طارق مسعود صاحب نے جو روایت بیان کی ہے وہ سنن ابی داؤد (حدیث نمبر: 198) میں بدرجہ حسن، مذکور ہے۔ اس کے متعلق علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یہ واقعہ مرفوع حدیث کے حکم میں ہے، کیونکہ یقینا اس معاملے کی خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوئی، اگر زخم سے نکلنے والا خون نماز کا ناقض ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ضرور وضاحت فرمادیتے، اور اگر بالفرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ معاملہ مخفی رہ گیا تھا تو اللہ تعالیٰ سے تو کسی صورت مخفی نہیں رہ سکتا تھا، اگر یہ خون ناپاک اور ناقض ہوتا تو اللہ تعالیٰ یقینا وحی کے ذریعے اس کی وضاحت فرمادیتے۔ [تمام المنۃ: ص،51] لہذا زخم سے نکلنے والے خون کے ناپاک اور نجس ہونے کی کوئی صحیح دلیل قرآن و سنت میں موجود نہیں ہے۔ بلکہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ قاتلانہ حملے کے نتیجے میں جب شدید زخمی ہوئے اور اپنے گھر میں موجود تھے تو سیدنا مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ آپ رضی اللہ عنہ کی عیادت کے لیے گئے، وہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عمر کو نماز کے لیے اٹھایا گیا تو آپ اٹھے اور نماز پڑھی، جبکہ آپ کے زخم سے خون نکل رہا تھا۔ [موطا امام مالک، حدیث،51] اسی طرح امام بخاری رحمہ اللہ نے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے منقول ایک روایت بیان کی ہے کہ غزوہ ذات الرقاع میں ایک صحابی کو تیر لگا ان کا خون بہنا شروع ہوگیا لیکن پھر بھی انھوں نے رکوع اور سجدہ ادا کیا نماز جاری رکھی، اور امام بخاری رحمہ اللہ نے امام حسن بصری رحمہ اللہ کا ایک قول بھی نقل کیا ہے کہ مسلمان (یعنی صحابہ و تابعین) زخمی حالت میں بھی نماز پڑھتے رہے ہیں۔ [صحیح البخاری: قبل حدیث نمبر:176] لہذا سب سے پہلے تو دیکھا جائے گا کہ زخموں سے نکلنے والے خون کا نجس ہے یا نہیں، پھر اس پر حکم لگایا جائے گا، جب اس خون کے نجس اور ناقض نماز ہونے کی کوئی دلیل ہی موجود نہیں تو پھر تکلف اور چونکہ چنانچہ سے کام لینا اور جبرا حکم لاگو کرنا مناسب نہیں۔ واللہ اعلم

فضیلۃ العالم امان اللہ عاصم حفظہ اللہ

بارک اللہ فیکم
زکریا کاندھلوی صاحب نے تو فضائل اعمال میں ابو داود کی روایت میں مذکور صحابی رضی اللّٰہ عنہ کے واقعے کی تاویل کرتے ہوئے یہ جرات تک کردی کہ ” شاید صحابی کا مذہب شافعی ہو “۔ انا لِلّٰهِ وانا الیہ راجعون

فضیلۃ الباحث رانا عبد اللہ مرتضیٰ حفظہ اللہ