سوال (6366)
ایک صاحب ایک مجلس میں فلسفہ جھاڑ رہے تھے:
“لوگ شرک کرتے ہیں، داتا تو صرف اللہ پاک کی ذات ہے۔ علی بن عثمان ہجویری کو داتا کہنا قرآن سے دوری کا نتیجہ ہے!”
میں نے وضاحتاً عرض کیا: حقیقی داتا یقیناً رب تعالیٰ ہی ہے، مگر حضرت علی بن عثمان ہجویری رحمۃُ اللہ علیہ کو مجازاً داتا کہا جاتا ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کی عطا سے آپ بندوں کو اس کے خزانے عطا فرماتے ہیں۔
وہ صاحب جھٹ سے بولے: “بس! داتا اللّٰہ ہے، بندے کو مجازی طور پر بھی داتا کہنا شرک ہے!”
میں نے سوالاً عرض کیا: ماشاء اللّٰہ! آپ تو قرآن فہمی کا دعویٰ رکھتے ہیں، بتائیے، کیا کسی بندے کو مجازی طور پر ‘رب’ کہا جا سکتا ہے؟
فوراً جواب آیا: “نہیں، ہرگز نہیں! رب تو اللّٰہ ہے، بندے کو رب کہنا کھلا شرک ہے!”
میں نے عرض کیا: یہی تو قرآن سے دوری کا نتیجہ ہے! سورۂ یوسف پڑھیے، اس میں چار مقامات پر ایک کافر، شرابی بادشاہ کے لیے ‘رب’ کا لفظ مجازاً استعمال ہوا ہے:
1. فَیَسْقِیْ رَبَّهٗ خَمْرًا (جزء الآیہ 41)
2. اُذْكُرْنِیْ عِنْدَ رَبِّكَ (جزء الآیہ 42)
3. فَاَنْسٰىهُ الشَّیْطٰنُ ذِكْرَ رَبِّهٖ (جزء الآیہ 42)
4. اِرْجِـعْ اِلٰى رَبِّكَ (جزء الآیہ 50)
ایک مقام کی وضاحت میں کر دیتا ہوں کہ: جب حضرت یوسف علیہ السلام قید میں تھے، دو قیدی آپ کے ساتھ داخل ہوئے۔ ایک نے کہا: “میں نے خواب دیکھا ہے کہ شراب نچوڑ رہا ہوں۔” آپ نے تعبیر بیان فرمائی: یَسْقِی رَبَّه خَمْرًا یعنی “وہ اپنے رب کو شراب پلائے گا”۔ یہاں “رب” کا لفظ خود اللہ کے نبی یوسف علیہ السلام نے مصر کے کافر بادشاہ کے لیے مجازاً استعمال فرمایا۔
تو سوال یہ ہے: اگر ایک فاسق و کافر بادشاہ کے لیے نبی علیہ السلام “رب” کا لفظ مجازی معنوں میں استعمال کریں اور یہ شرک نہ ہو، تو ایک ولیِ کامل کے لیے “داتا” کا لفظ مجازی معنوں میں استعمال کرنا کیسے شرک ہو سکتا ہے؟
سوچیے! “داتا” بڑا لفظ ہے یا رب؟ قرآن و حدیث میں “داتا” کا لفظ اللّٰہ تعالیٰ کے لیے ایک بار بھی نہیں آیا، جبکہ “رب” کا لفظ قرآن میں سینکڑوں بار اور احادیث میں ہزاروں مرتبہ اللہ تعالیٰ کے لیے استعمال ہوا ہے۔
یہ سن کر صاحبِ موصوف کان کُھجانے لگے اور آئیں بائیں شائیں کرنے لگا۔ ترجمۂ قرآن پڑھ کر قرآن فہمی کے دعوے تو بہت آسان ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ قرآن فہمی اللہ تعالیٰ نے اہلِ سنَّت ہی کو عطا فرمائی ہے۔
اس تحریر پر مشائخ اپنے ملاحظات اور وضاحت سے نوازیں؟
جواب
داتا کو داتا مجازی طور پر اس لیے کہنا کہ وہ مردہ حالت میں خدا کی عطا سے بندوں کو عطا کرتے ہیں، سراسر جہالت و بد اعتقادی کے سوا کچھ نہیں۔
فضیلۃ الشیخ محمد زین سرور حفظہ اللہ




