سوال (6144)

ایک قول کے متعلق آپ کی رہنمائی درکار ہے۔ قاضی عیاض ہمالہ (۵۴۴ھ) فرماتے ہیں:

الْإِجْمَاعُ عَلَى أَنَّ الْكُفَّارَ لَا تَنْفَعُهُمْ أَعْمَالُهُمْ وَلَا يُتَابُونَ عَلَيْهَا بِنَعِيمٍ وَلَا بِتَخْفِيفِ عَذَابٍ.

اس پر اجماع ہے کہ کفار کو ان کے اعمال فائدہ نہ دیں گے، نہ ان اعمال کے بدلے میں انہیں نعمتیں ملے گیں اور نہ ان کے عذاب میں تخفیف ہوگی۔“ (إكمال المعلم: 597/1)

جواب

صحیح مسلم کی روایت ہے کہ اہل کفر کو ان کی نیکیوں کے بدلے دنیا میں فائدہ ہوتا ہے، آخرت میں ان کو کوئی بھی نیکی فائدہ نہیں دے گی، اجماع کا یہ دعویٰ اس نہج پر قائم و دائم ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

“فَلَا يُخَفَّفُ عَنۡهُمُ الۡعَذَابُ وَلَا هُمۡ يُنۡصَرُوۡنَ” [البقرة: 86]

«سو نہ ان سے عذاب ہلکا کیا جائے گا اور نہ ان کی مدد کی جائے گی»
اس کے باوجود کفر کے اعتبار سے جو درجہ بندیاں ہیں، اس اعتبار سے درجات ہیں، ہر کسی کے کفر کے اعتبار سے عذاب دیا جائے گا، فرعون کا کفر اور ہے، اس کے ماننے والوں کا کفر اور ہے، اس طرح ابو جہل اور اس کے ماننے والوں کے کفر میں فرق ہے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ