سوال (534)

ایک بندہ جو مالی حالات بھی پریشان ہو ، قرضوں کے شدید جال میں پھنس گیا ہو ، بیماریوں پریشانیوں نے آ گھیرا ہو ، کیا ایسے بندے کے لیے مسجد میں اپیل کرنا جائز ہے؟

جواب

جی ان شاءاللہ جائز ہے ، بندہ اپیل کر سکتا ہے ، اس میں کوئی حرج نہیں ہے ، باقی اسلام کے اندر گداگری مانگنا نہ مسجد میں اس کی اجازت ہے نہ باہر اس کی اجازت ہے البتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین معاملات میں مانگنے کی اجازت دی ہے، وہ مسجد میں بھی اپ اپیل کر سکتے ہیں مسجد سے باہر بھی کر سکتے ہیں
سیدنا قبیصہ بن مخارق الھلالی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

“تحمَّلْتُ حَمَالَةً فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَسْأَلُهُ فِيهَا فَقَالَ أَقِمْ حَتَّى تَأْتِيَنَا الصَّدَقَةُ فَنَأْمُرَ لَكَ بِهَا قَالَ ثُمَّ قَالَ يَا قَبِيصَةُ إِنَّ الْمَسْأَلَةَ لَا تَحِلُّ إِلَّا لِأَحَدِ ثَلَاثَةٍ رَجُلٍ تَحَمَّلَ حَمَالَةً فَحَلَّتْ لَهُ الْمَسْأَلَةُ حَتَّى يُصِيبَهَا ثُمَّ يُمْسِكُ وَرَجُلٌ أَصَابَتْهُ جَائِحَةٌ اجْتَاحَتْ مَالَهُ فَحَلَّتْ لَهُ الْمَسْأَلَةُ حَتَّى يُصِيبَ قِوَامًا مِنْ عَيْشٍ أَوْ قَالَ سِدَادًا مِنْ عَيْشٍ وَرَجُلٌ أَصَابَتْهُ فَاقَةٌ حَتَّى يَقُومَ ثَلَاثَةٌ مِنْ ذَوِي الْحِجَا مِنْ قَوْمِهِ لَقَدْ أَصَابَتْ فُلَانًا فَاقَةٌ فَحَلَّتْ لَهُ الْمَسْأَلَةُ حَتَّى يُصِيبَ قِوَامًا مِنْ عَيْشٍ أَوْ قَالَ سِدَادًا مِنْ عَيْشٍ فَمَا سِوَاهُنَّ مِنْ الْمَسْأَلَةِ يَا قَبِيصَةُ سُحْتًا يَأْكُلُهَا صَاحِبُهَا سُحْتًا” [صحیح مسلم : 1044]

’’میں نے لوگوں کے معاملات میں اصلاح کے لئے ادائیگی کی ایک ذمہ داری قبول کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے لئے کچھ مانگوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ٹھہرو حتیٰ کہ ہمارے پاس صدقہ آ جائے تو ہم وہ تمھیں دے دینے کا حکم دیں۔‘‘ پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے قبیصہ! تین قسم کے افراد میں سے کسی ایک کے سوا اور کسی کے لئے سوال کرنا جائز نہیں: ایک وہ آدمی جس نے کسی بڑی ادائیگی کی ذمہ داری قبول کر لی، اس کے لئے اس وقت تک سوال کرنا حلال ہو جاتا ہے حتیٰ کہ اس کو حاصل کر لے، اس کے بعد (سوال سے) رک جائے،
دوسرا وہ آدمی جس پر کوئی آفت آ پڑی ہو جس نے اس کا مال تباہ کردیا ہو، اس کے لئے سوال کرنا حلال ہو جاتا ہے یہاں تک کہ وہ زندگی کی گزران درست کر لے۔ یا فرمایا: زندگی کی بقا کا سامان کرلے۔اور تیسرا وہ آدمی جو فاقے کا شکار ہو گیا، یہاں تک کہ اس کی قوم کے تین عقلمند افراد کھڑے ہو جائیں (اور کہہ دیں) کہ فلاں آدمی فاقہ زدہ ہو گیا ہے تو اس کے لئے بھی مانگنا حلال ہو گیا یہاں تک کہ وہ درست گزران حاصل کرلے۔ یا فرمایا: زندگی باقی رکھنے جتنا حاصل کر لے ۔
اے قبیصہ! ان صورتوں کے سوا سوال کرنا حرام ہے اور سوال کرنے والا حرام کھاتا ہے‘‘۔
حدیث میں جو تصدیق ہے اس کی اج کل جو شکل نکلی ہوئی ہے وہ ہے کہ لوگ علماء سے تزکیہ لے لیتے ہیں ، پھر وہ تزکیہ لے کر مساجد کے اندر چلتے ہیں کہ میرے پاس عالم دین کا تزکیہ ہے ، تزکیہ کا مطلب ہوتا ہے کہ اس بات کی گواہی اور شہادت کہ واقعتا یہ بندہ فقر و فاقہ کا شکار ہے ، آپ اس کے ساتھ تعاون کریں یا کسی مسجد مدرسے کے لیے اگر اجازت لینی ہے سوال کرنے کی تو وہ تزکیہ کا مطلب ہوتا ہے کہ صاحب تزکیہ اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ واقعی یہ مسجد ، یہ مدرسہ بنا رہا ہے لیکن ہمارے ہاں یہ ہوتا ہے کہ یہ جالی تزکیہ ہوتے ہیں یعنی وہ کسی کے پاس جاتے ہیں ، کسی عالم کے پاس جاتے ہیں یا کسی تنظیم کے دفتر میں جاتے ہیں اور وہاں پر جا کر کوئی ان کی جو شرط ہوتی ہے کہ یہ اپ پوری کریں اتنے پیسے دے دیں یا کوئی ہمارا رسالہ اپنے نام پہ جاری کروا لیں یا یہ کر لیں تو اس پہ پھر وہ تزکیہ جاری کر دیتے ہیں ، میرے علم کے مطابق بغیر تحقیق کے یہ تزکیہ جاری کرنا بھی درست نہیں ہے جو تزکیہ جاری کرے وہ ضامن ہے ، اب وہ خود تحقیق کرے یا اپنے کسی نمائندے کو بھیج کر تحقیق کروائے پھر اس کے بعد تزکیہ جاری کریں اور اس میں یہ شرط رکھی گئی ہے کہ جو تین لوگ ہیں ، وہ اس کی ضمانت دیں کہ اس کی بھی اجازت اتنی دیر تک ہے جب تک وہ فقر و فقہ ختم نہیں ہو جاتا یعنی یہ جو سوال کرنے کی اجازت اس حدیث میں دی گئی ہے وہ مسلسل پوری زندگی کے لیے نہیں ہے یہ عارضی طور پر اجازت ہے ، جب اس عارضی کیفیت سے نکل جاتے ہیں تو اس کے بعد سوال کرنا منع ہے ، اللہ تعالی نے اس لیے کہ جو صاحب استطاعت افراد ہیں ، ان پر زکوۃ فرض کی ہے اور ان کو صدقات و خیرات کا حکم دیا کہ وہ خود نکل کر ایسے لوگوں کو ڈھونڈکر اپنی زکوۃ وصدقات و خیرات خرچ کریں ، ایسے ہی بیت المال قائم کریں ، وہاں پر زکوۃ وصدقات اکٹھے ہوں اور پھر حکومت ایسے لوگوں کی کفالت کریں تاکہ مانگنے کی یہ نوبت نہ آئے لیکن اگر کسی تک وہ نہیں پہنچ پاتی حکومت یا جو امیر لوگ ہیں زکوۃ نہیں پہنچا پاتے اور وہ مجبور ہے تو ایسی کیفیت بن جاتی ہے۔ جیسا کہ احادیث کے اندر آئی ہے تو پھر اس کو سوال کرنے کی اجازت ہے وہ اپنی لوگوں کے سامنے ریکویسٹ رکھ سکتا ہے اور ایسے لوگ جو واقعی مستحق ہیں ، اگر وہ ہمارے پاس آتے ہیں تو ان کی ضرور مدد کرنی چاہیے اور جو دو نمبر لوگ ہیں ، ان کی حقیقت لوگوں کے سامنے بیان کرنی چاہیے کہ یہ بندہ دو نمبر ہے اس سے بچ کررہیں۔

فضیلۃ العالم ڈاکٹر ثناء اللہ فاروقی حفظہ اللہ

جو آدمی اللہ کے نام پر مانگتا ہے ، اللہ کے نام کی تعظیم کرتے ہوئے ، اس کی مدد کردینی چاہیے وہ جھوٹ بول رہا ہے تو خود جواب دہ ہوگا۔

فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ