سوال (6045)

کیا بخاری میں نبیﷺ کی حدیث ہے کہ مرنے کے بعد ہر چیز گل سڑ جائے گی سوائے ریڑھ کی ہڈی کے ایک سرے کے۔ لیکن ماڈرن سائنس کہتی ہے کہ نہیں وہ ہڈی بھی گل سڑ جاتی ہے تو اعتراض ہے کہ کیا اسلام سائنس اور فطرت کے خلاف ہے کیونکہ اس حدیث (یعنی اسلام) کو سائنس سے ثابت نہیں کیا جا سکتا؟

جواب

جہاں تک حدیث کی صحت کا تعلق ہے تو ہاں واقعی اس مفہوم کی صحیح روایات موجود ہیں البتہ کچھ اور بھی روایات ہیں مثلا مسند احمد میں اس کی مزید تفصیل ہے کہ اسکا سائز رائی کے برابر ہے وغیرہ۔
جہاں تک اسلام کے سائنس اور فطرت کے خلاف ہونے والا اعتراض ہے تو پہلے ہم فطرت اور اسلام اور سائنس کا موازنہ کرتے ہیں۔
پہلے اسلام اور فطرت کو دیکھتے ہیں فطرت ان اصولوں کو کہتے ہیں جن پہ کسی چیز کو بنایا جاتا ہے مثلا گاڑی کو اگر بجلی پہ چلنے کے لئے بنایا گیا ہے تو یہ اسکی فطرت میں شامل ہو گا کہ وہ بجلی پہ ہی بہترین چلے گی پس انسان کواللہ نے جن اصولوں پہ پیدا کیا وہی اسکی فطرت ہیں اور اللہ سورہ روم میں فرماتا ہے۔

فَأَقِمْ وَجْهَکَ لِلدِّینِ حَنِیفاً فِطْرَتَ اللّهِ الَّتِی فَطَرَ النّاسَ عَلَیْها لاتَبْدِیلَ لِخَلْقِ اللّهِ ذلِکَ الدِّینُ الْقَیِّمُ،

یعنی یہ دین اسلام ہی ان اصولوں پہ مشتمل ہے جو انسان کی فطرت ہے۔
سائنس بھی ہمیں کائنات کے اصول بتاتی ہے جو انسان نے دریافت کیے ہوتے ہیں مگر یہ اصول انسان کی اصل فطرت (یعنی اسلام) سے کبھی مخالف بھی ہو جاتے ہیں کیونکہ انسان کی عقل ناقص ہے ہیں اسکی مثال یہ ہے کہ اسلام نے چودہ سو سال پہلے قرآن میں زمین سورج ستاروں کی یہ فطرت بتا دی تھی کہ کل فی فلک یسبحون کہ کائنات میں ہر چیز اپنے اپنے مدار میں تیر رہی ہے مگر پرانے سائنسدان جیو سنٹرک ماڈل بتاتے تھے اور سمجھتے تھے کہ زمین ساکن ہے پھر انسان کی عقل (سائنس) نے ترقی کی تو دریافت ہوا کہ زمین بھی سورج کے گرد گھوم رہی ہے مگر سورج ساکن ہے پھر مزید سائنس نے ترقی کی تو پتا چلا کہ سورج بھی گلیکسی میں گھوم رہا ہے اور گلیکسیاں بھی اپنے مدار میں گھوم رہی ہیں یعنی اب آہستہ آہستہ سائنس (انسانی عقل) اصلی فطرت (یعنی اسلام) کے مطابق ہو گئی۔
پس پہلی بات یہ یاد رکھیں کہ بعض دفعہ اسلام کی کوئی چیز سائنس کے خلاف ہوتی ہے تو اس میں اعتراض اسلام کے ناقص ہونے کا نہیں بلکہ سائنس کے ناقص ہونے کا ہوتا ہے۔
اوپر سوال کے مطابق اگر ہڈی کے اس رائی کے برابر حصے کے نہ گلنے کو سائنس سے ثابت نہیں کیا جا سکتا تو کیا جس کو ثابت نہ کیا جا سکے اسکا عدم بھی ثابت ہو جاتا ہے؟ مثلا 1911 عیسوی میں ردر فورڈ نے الفا پارٹیکل کو سونے کی پتلی تہ پہ مار کر ایٹم کے نیوکلیئس کا مفروضہ دیا تو کیا اس سے پہلے نیوکلیئس ہوتا ہی نہیں تھا؟
دیکھیں ماڈرن سائنس کے ثبوت دو طرح کے ہوتے ہیں ایک منطقی (عقلی دلائل) جس کو reasoning کہتے ہیں دوسرا مشاہدات و تجربات جس کو empiricism کہتے ہیں۔
اب کچھ دہریے سائنسدان یہ مفروضہ تو پیش کر رہے ہیں کہ چونکہ ریڑھ کی ہڈی بھی عام ہڈیوں کی طرح ہے پس ڈی کمپوز ہو جائے گی ہمیشہ باقی نہیں رہے گی تو کیا اس پہ دوسرا ٹیسٹ یعنی تجربہ بھی کر کے دکھایا ہے کہ پہلے کسی مردے سے وہ رائی کے برابر حصہ جس کا شریعت میں ذکر ہے وہ لے اور پھر اسکو ڈی کمپوز کر کے دکھائے؟
جب سائنس نے صرف مفروضہ ہی پیش کیا ہے ابھی اسکو تجربہ سے ثابت ہی نہیں کیا تو پھر یہ سائنس کا نقص ہوا اسلام کا نقص نہیں ہوا۔
اس کو ایک مثال سے دیکھتے ہیں کہ سائنس نے تھرمل ایکسپینشن کا اصول بنایا ہے کہ چیزیں عموما گرم کرنے سے پھیلتی ہیں اور ٹھنڈا کرنے سے سکڑتی ہیں اسی لئے ریلوے لائن میں درمیان میں فاصلہ رکھا جاتا ہے کہ گرمیوں میں پھیل کر ٹیڑھی نہ ہو جائے اب اس اصول پہ خود سائنس جب تجربات کرتی ہے تو وہاں عموما یہ درست رہتا ہے لیکن کچھ جگہوں پہ سائنس کو انومالی (اصول سے ہٹ کر) دکھائی دیتی ہے مثلا پانی کو ٹھنڈا کرتے جائیں تو وہ سکڑتا ہے مگر 4 ڈگری سے صفر ڈگری تک اسکا تعامل الٹ ہو جاتا ہے یعنی وہ الٹا پھیلنے لگ جاتا ہے تو اس کو سائنس استثنی کہتی ہے۔ تو کیا اسی طرح جو مفروضہ دہریے سائنس دانوں نے دیا کہ ہر ہڈی گل سڑ جاتی ہے مگر اس میں بھی انومالی خود سائنس کی پریکٹس کو دیکھتے ہوئے پائی جا سکتی ہے پس جب تک سائنس اسکو کسی مردہ کے اس رائی کے برابر حصہ کو لے کر ثابت کر کے نہیں دکھاتی تو اسلام پہ اعتراض خود سائنس کی پریکٹس کے مطابق نہیں کیا جا سکتا۔

فضیلۃ العالم ارشد حفظہ اللہ

میڈیکل سائنس ابھی تک ظن و تخمینوں میں سرگرداں ہے، اس کو ابھی تک اپنا پتا نہیں، کہ زمین گھوم رہی ہے یا نہیں، ہماری تحقیق کے مطابق وہ ریڑھ کی ہڈی کے ایک سرے جو ہے، وہ ایٹم بم سے بھی ختم نہیں ہو سکتا، یہ میڈیکل سائنس بھی مانتی ہے، اگر میڈیکل سائنس نے بات کی ہے، تو اس کا ثبوت ہوگا، اگر مل بھی جائے، تب بھی غلط ہے، کیونکہ ایمان نبی کریم ﷺکی بات پر ہوتا ہے، میڈیکل سائنس پر نہیں ہوتا۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ