سوال (5452)

کیا مسجد گرانا نواقض اسلام میں سے ہے؟ کیا مسجد گرانے والوں کی تکفیر کرنا درست ہے؟ مساجد اسلام کے شعائر میں سے ہے، کیا شعائر پر حملہ کرنا اسلام پر حملہ کرنے کے مترادف نہیں؟ جن لوگوں کے حکم سے مسجد گرائی گئی ہمارا ان کے بارے میں کیا موقف ہونا چاہیے؟
اس میں ایک سوال یہ بھی ہونا چاہیے کہ متجاوز یا ناجائز جگہ پر مسجد بنانے کا کیا حکم ہے؟ اور ساتھ یہ بھی ہونا چاہیے کہ جو مسجد ریاست کے وجود سے پہلے کی اور کئی بار ریاست سے خود تعمیر کروائی تو اب توڑنا بغیر لوگوں کو مطمئن کیے اور ساتھ اسلام آباد میں قانونی طور پر شراب کے اڈوں کو لائنسنس دینا کیسا ہے؟

جواب

پیارے بھائی خالی مسجد گرانے سے کوئی کافر نہیں ہوتا بلکہ جو اس نیت سے مسجد گرائے کہ تاکہ لوگ اس میں نماز نہ پڑھیں تو اسکو کافر کہنے کی کیا ضرورت ہے وہ تو خود کو مسلمان بھی نہیں کہتا ہو گا۔
باقی مسجد گرانے والے کی نیت کو دیکھا جائے گا کہ کیوں گرائی ہے اگر گرانے کی ٹھوس دلیل موجود ہے تو مسجد تو کیا خانہ کعبہ گرانے سے بھی کوئی کافر نہیں ہوتا
آپ کو پتا ہونا چاہئے کہ رسول اللہ ﷺ کی بعثت سے چند سال پہلے قریش نے کعبہ کی تعمیر نو کی تھی اور پیسوں کی کمی کی وجہ سے اسکا کچھ حصہ (حطیم) کعبہ کے باہر رہ گیا تھا یعنی وہ ابراھیمی بنیاد کی بجائے قریش کی نئی بنیاد پہ بنایا تھا۔
عبداللہ بن زبیر ؓ نے اپنے دور میں کعبہ کو گرایا تھا اور اس میں حطیم شامل کر کے اسکو ابراھیم والی بنیاد پہ دوبارہ تعمیر کیا تھا لیکن بعد میں حجاج بن یوسف نے دوبارہ اسکو توڑ کر قریش والی بنیاد پہ تعمیر کر دیا تھا جو آج تک موجود ہے۔ پس مسجد اگر کسی خاص ٹھوس دلیل کی وجہ سے گرائی گئی ہے تو اسکو گرانے والے کو کافر یا فاسق وغیرہ نہیں کہا جا سکتا۔ واللہ اعلم
پیارے بھائی میرے خیال میں جہاں تک شراب کے اڈوں کے لائسنس دینے کی بات ہے اسکا اس مسجد گرانے سے کوئی تعلق نہیں البتہ جو آپ نے لکھا ہے کہ بغیر وجہ کے ایک قیام پاکستان سے پہلے کی مسجد کو گرایا گیا ہے تو میں نے اوپر لکھا ہے کہ اگر کوئی مسجد ٹھوس دلائل کی وجہ سے گرائی جائے لیکن اگر ٹھوس دلائل نہ ہوں تو پھر تو وہ غلط ہی ہو گا اب وہ غلطی کفر تب ہو گی جب نماز سے روکنے اور اسلام کی دشمنی کی وجہ سے گرائی جائے لیکن اگر گرانے کی ٹھوس دلیل تو نہ ہو لیکن کوئی نہ کوئی تاویل کرتے ہوں جیسے نا جائز قبضہ یا پھر کوئی اور تاویل تو پھر بھی اس وجہ سے کافر تو نہیں کہا جائے گا تاویل دیکھ کر فیصلہ کیا جائے گا۔ واللہ اعلم

فضیلۃ العالم ارشد حفظہ اللہ