سوال (2105)
ایک آدمی کی اولاد میں پانچ بیٹے اور چار بیٹیاں ہیں، آدمی فوت ہوا ہے، اس کی وراثت میں چھ لاکھ روپے تھا، اس نے جس کے پاس رقم جمع کروائی تھی، اس کو کہا کہ میرے مرنے کے بعد مسجد میں پیسے دے دینا، جب وہ آدمی فوت ہوا ہے تو وہ پیسے اس کی اولاد میں تقسیم کر دیے گئے ہیں، مسجد میں نہیں دیے گئے ہیں، جس کے پاس پیسے جمع تھے، کیا اس نے درست کیا ہے؟
جواب
وصیت درست نہیں تھی، یہ مال ورثاء کا حق تھا، امانت دار نے ٹھیک کیا کہ اس کی رقم ورثاء کے حوالے کردی ہے۔
فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ
شرعی طور پر ایک تہائی مال کی وصیت جائز ہے۔ دیکھیں ۔ [صحیح البخاری: 1295]
اگر کسی نے یہ وصیت کی ہے کہ سارا کا سارا مال ہی مسجد کو دے دیا جائے تو اس صورت میں، ایک تہائی مال تک کی چونکہ رخصت ہے اس لیے ایک تہائی مسجد پر صرف کردیں اور باقی 2 تہائی ورثاء میں تقسیم کردیں۔ یہ میت کے لیے بھی صدقہ جاریہ بن جائے گا۔
یاد رہے اہل توحید کے علاؤہ اہل شرک اہل بدعت کی مساجد پر خرچ کرنا یہ دین کو گرانا ہے اور کفر و شرک کی اشاعت میں معاونت ہے جو کہ منع ہے۔ [المائدہ : 2]
لہذا سوائے اہل توحید کے کسی بھی مسجد پر مال صرف نہیں کیا جائے گا خواہ وصیت ہی کیوں نہ کی گئی ہو۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فضیلۃ الباحث احمد بن احتشام حفظہ اللہ
اب ورثاء کا حق بنتا ہے کہ چھ لاکھ میں سے دو لاکھ یعنی ایک تہائی کی وصیت نافذ کرتے ہوئے ایک تہائی رقم مسجد میں دے دیں۔
فضیلۃ العالم فہد انصاری حفظہ اللہ
سائل:
شیخ انہوں نے سارے پیسے ورثاء کو تقسیم کردیے تھے، مسجد میں ایک تہائی بھی نہیں دیا ہے، اب اس صورت میں کیا ورثاء گناہ گار ہونگے؟
جواب:
کوئی حرج نہیں ہے۔ ان شاءاللہ۔
فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ