سوال (6064)

اگر کوئی کسی جگہ ملازمت کرتا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ تنخواہ کے لئے لازمی کسی بینک میں سیونگ اکاونٹ کھلواوں تو کیا وہ جائز ہے؟ کیا فورا وہ تنخواہ کسی دوسرے کرنٹ اکاونٹ میں ٹرانسفر کروا لینی چاہیے اور اگر سیوننگ میں رہیں اور سود ملے تو کیا وہ پیسے خود استعمال کیے جا سکتے ہیں یا کسی ضرورت مند کو دیئے جا سکتے ہیں؟

جواب

سیونگ اکاؤنٹ کا مطلب صاف سود ہے، لہذا یہ کھلوانا جائز نہیں۔
اداروں کی طرف سے عموما مطالبہ بینک اکاؤنٹ کا ہوتا ہے، سیونگ بینک اکاؤنٹ کا نہیں ہوتا، لہذا کرنٹ اکاؤنٹ کھلوا لیا جائے۔ کمپنی کے لیے اس میں کوئی فائدہ نقصان نہیں کہ آپ نے کرنٹ اکاؤنٹ کھلوایا یا سیونگ، بلکہ میرے خیال میں شاید انہیں پتہ بھی نہیں چل سکتا کہ ہم جس میں پیسے ٹرانسفر کر رہے ہیں وہ کرنٹ اکاؤنٹ ہے یا سیونگ اکاؤنٹ۔ واللہ اعلم.
سیونگ اکاؤنٹ کھلوانا جائز نہیں، کسی نے کھلوایا ہے تو اس کو بند کروائے، اس کے پیسے نہ خود استعمال کرے نہ کسی کو دے۔
اگر کسی وجہ سے پیسے آ گئے ہیں تو انہیں کسی ایسے شخص کو دے دیں جو سود کی وجہ سے مقروض ہے، تاکہ اس کا سود اتر جائے۔

فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ

سوال کے جواب سے پہلے تمہیدا تین اہم پوائنٹس بتانا ضروری سمجھتا ہوں۔
1۔ بعض دفعہ انسان پہ کوئی ایسی مجبوری آ جاتی ہے جس میں ایک شرعی حکم میں کچھ رخصت یا گنجائش دی جاتی ہے اس مجبوری کی انٹنسٹی یا شدت کا اس بندے کو ہی علم ہوتا ہے عالم نہیں جان سکتا پس عالم کچھ بنیادی اصول بتا دیتا ہے باقی شدت کو دیکھتے ہوئے فیصلہ خود کرنا ہے۔
2۔ اسی طرح ہر بندے کے تقوی کا بھی اپنا ایک لیول ہوتا ہے کوئی کم متقی ہوتا ہے کوئی زیادہ متقی ہوتا ہے اپنے لیول کو دیکھ کر بھی خود فیصلہ کرنا ہے۔
3۔ بخاری میں نعمان بن ثابتؓ سے نبیﷺ کا فرمان ملتا ہے کہ کچھ چیزیں واضح حلال ہوتی ہیں کچھ واضح حرام ہوتی ہیں اور کچھ متشابہ چیزیں ہوتی ہیں جن کو اللہ ہی جانتا ہے پس جس نے ان متشابہ چیزوں سے اپنے آپ کو بچا لیا سمجھو کہ اس نے اپنے دین اور عزت کو بچا لیا۔
پس اس حدیث کے مطابق شکوک و شبہات والی چیزوں سے بھی بچنا چاہئے۔
اب سوال کی طرف آتے ہیں کہ بینک میں اکاونٹ کھلوانا یا پھر بینک کے ذریعے کوئی ٹراسیکشن کرنا بعض دفعہ مجبوری بن جاتی ہے ایسی صورت میں آپ کرنٹ اکاونٹ کھلوائیں اور اس میں صرف اتنے پیسے رکھوائیں جتنے آپ کی مجبوری ہے۔
مثلا آپ کی تنخواہ کے لئے لازمی ہے کہ کوئی بینک اکاونٹ ہو چاہے کرنٹ ہو یا سیونگ ہو تو پہلے تو آپ کو کرنٹ اکاونٹ کھلوانا چاہے اور اس میں بھی جیسے ہی تنخواہ آئے فورا نکلوا لینی چاہئے کیونکہ اگراکاونٹ میں بھی رقم رہے گی تو بینک آپ کی اس رقم کو غلط کاموں میں استعمال کرے گا جو کہ قرآن کی آیت (ولا تعاونوا علی الاثم والعدوان کہ برائی کے کاموں میں تعاون نہیں کرنا) کے خلاف ہے۔
لیکن سوال میں کہا گیا ہے کہ کرنٹ اکاونٹ کی اجازت نہیں تو پھر سیونگ کی بھی بحالت مجبوری کھلوا سکتے ہیں لیکن شرط یہ ہے کہ اس میں رقم رہنی بالکل نہیں چاہئے فورا نکلوا لینی چاہئے۔
اور اگر کبھی غلطی سے یا سستی سے یا نفس کے بیکانے پہ رقم سیوننگ اکاونٹ میں پڑی رہ جاتی ہے تو پھراس معاملے میں تین صورتیں ہو سکتی ہیں۔
1۔ پہلی یہ کہ وہ سود کی رقم لے کر خود ہی استعمال کرلے یہ صورت تمام علما کے ہاں جائز نہیں۔
2۔ دوسری یہ کہ سود کی رقم بینک سے تو لے لی جائے لیکن خود استعمال نہ کی جائے بلکہ کسی اور اچھے کام میں لگا لی جائے کچھ علما کے ہاں یہی بہتر طریقہ ہے میرا موقف اسی کے ساتھ ہے کہ بینک کے لئے نہ چھوڑی جائے بلکہ کسی اچھے کام میں لگا لی جائے۔
3۔ تیسری یہ کہ سود کی رقم بینک سے لی ہی نہ جائے کچھ علما کے ہاں صرف یہی جائز طریقہ ہے دوسرا بھی نا جائز ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے چچا کا سود معاف کر دیا تھا وہ لے کر غریبوں وغیرہ میں تقسیم نہیں کیا تھا (میرے نزدیک رسول اللہ ﷺ نے جن کا سود معاف کیا تھا وہ سود غیر مسلم کو نہیں دیا جانا تھا بلکہ مسلم کو ہی دیا جانا تھا اور معاف کرنے سے وہ مزید سود کے معاملے میں استعمال نہ ہوتا لیکن موجودہ بینک کو اگر سود چھوڑ دیا جائے تو وہ اس رقم کو مزید سود کے کاموں میں استعمال کرے گا جس میں ولا تعاونوا علی الاثم والعدوان کے مخالف بات ہے۔

فضیلۃ العالم ارشد حفظہ اللہ