سوال (5740)
کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لے کر آتے تھے؟ جس طرح قرآن میں کئی آیات ہیں؟
جواب
اندھیروں سے نکال روشنی کی طرف لے آنا یعنی گمراہیوں سے ہدایت کی طرف لاتے ہیں تو یاد رکھیں کہ ہدایت کی دو قسمیں ہیں، ان میں ایک قسم ہر شخص کر سکتا ہے، ایک قسم خاص اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہے۔
(1): ہدایت بمعنی توفیق: ہدایت کو دل ہر اتارنا یہ اللہ تعالیٰ کا کام ہے، یہ کوئی بھی نہیں کرسکتا ہے، خواہ نبی ہو یا ولی ہو۔
(2): ہدایت بمعنیٰ ارشاد: راستہ دکھانا یہ صراط مستقیم ہے، یہ جنت کا راستہ ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اندھیروں سے جنت یا صراط مستقیم کا راستہ دیکھاتے تھے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
ان بھائی کی منطق مجھے تو سمجھ نہیں آئی۔ اصل میں یہ بھائی جو چیز جان بوجھ کر گڈ مڈ کر رہے ہیں وہ یہ ہے کہ اللہ کے افعال اور وہی رسول اللہ ﷺ اور ولی کے افعال دکھا کر یہ ثابت کرنا چاہ رہے ہیں کہ جو کام اللہ کر سکتا ہے وہی کام نبی ﷺ اور کوئی ولی بھی کر سکتا ہے یہ شرک نہیں ہے تو بھائی یاد رکھیں اصل میں اللہ کے بھی کچھ افعال ہوتے ہیں اور بعض دفعہ اسی نام سے وہی افعال مخلوق کے بھی ہو سکتے ہیں مگر دونوں میں کیفیت میں مماثلت ہو ہی نہیں سکتی ہے مثلا اللہ جس طرح لوگوں کو ہدایت دیتا ہے اس طرح نبی ﷺ بھی نہیں دے سکتے جیسا کہ قرآن میں ہے انک لا تھدی من احببت ولکن اللہ یھدی من یشا یعنی اے نبی ﷺ جس طرح اللہ ہدایت دیتا ہے اس طرح تو ہدایت نہیں دے سکتا لیکن دوسری جگہ اللہ نے خود فرمایا کہ انک لتھدی الی صراط مستقیم یعنی آپ سیدھے راستے کی طرف ہدایت دیتے ہیں لیکن یہ ہدایت اللہ کے ہدایت دینے کی طرح نہیں ہوتی۔
اسی طرح ان اللہ یسمع من یشا وما انت بمسمع من فی القبور کہ اللہ جس کو چاہے سنا سکتا ہے مگر اس طرح آپ نہیں سنا سکتے اب نبی ﷺ بھی سنا سکتے ہیں مگر جس طرح اللہ سنا سکتا ہے اس طرح نبی ﷺ نہیں سنا سکتے اسی طرح اللہ کا بصیر ہونا وغیرہ بھی ثابت ہے اور ہمارا بھی مگر دونوں میں فرق ہے۔
اللہ ولی الذین امنوا والی آیت میں اللہ کے گمراہی سے نور کی طرف لے جانے کی بات کی گئی ہے اور دوسری آیت میں نبی ﷺ کے متعلق یہی بات کی گئی ہے یہ بات اگرچہ اللہ اور رسول ﷺ میں مشترک ہے مگر انکی کیفیت ایک جیسی نہیں ہے کیونکہ اس آیت سے اگر یہ بھائی سمجھتے ہیں کہ اللہ کے لئے یہ ثابت ہو رہا ہے کہ وہ ایک طرف سے نکال کر دوسری طرف لے جاتا ہے تو وہی کام تو کافروں کے لئے بھی اسی آیت میں ثابت ہو رہا ہے کہ وہ کافر لوگوں کو ہدایت سے نکال کر گمراہی میں لے جاتے ہیں اب یہ بھائی ہدایت کا معنی جنت کریں اور گمراہی کا معنی جہنم کریں تو بھی اس آیت سے پتا چلتا ہے کہ اللہ لوگوں کو جہنم کی طرف لے جاتے ہیں اور کافر لوگوں کو جنت سے جہنم کی طرف لے جاتے ہیں تو پھر جس طرح یہ ثابت کرنا چاہ رہے ہیں اس طرح تو کافروں کی طاقت اللہ کے برابر ثابت ہو رہی ہے کہ اللہ انکو جہنم سے جنت کی طرف لے جاتا ہے تو کافر انکو جنت سے جہنم لے جاتے ہیں تو کیا یہ بھائی یہ مانیں گے کہ یہ اللہ کی طاقت اور کافروں کی طاقت ایک جیسی ہے چاہے اللہ کی اصل اور کافروں کی عطائی ہو
پس یاد رکھیں قرآن میں ایک ہی آیت میں رسول اللہ ﷺ کو کہا گیا ہے کہ اللہ بھی تمھارا ولی ہے اور فرشتے بھی تمھارے ولی ہیں اور نیک لوگ بھی تمھارے ولی ہیں تو اب ان تینوں کی ولایت ایک جیسی کبھی نہیں ہو سکتی اللہ اپنی قدرت اور حکمت کے تحت ولایت کرتا ہے فرشتے اپنی طاقت اور اللہ کے حکم کے تحت ولایت کرتے ہیں اور عام مومن اپنی استطاعت اور شریعت کو دیکھ کر ولایت کرتا ہے
پس اس بھائی کی یہ منطق ہی درست نہیں ہے۔
فضیلۃ العالم ارشد حفظہ اللہ
إِنَّ اللَّهَ كَانَ سَمِيعًا بَصِيرًا اورإِنَّا خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ مِنْ نُطْفَةٍ أَمْشَاجٍ نَبْتَلِيهِ فَجَعَلْنَاهُ سَمِيعًا بَصِيرًا
کے پیش نظر سارے انسانوں کو خدائی صفات کا حامل قرار دیا جائے گا؟ اور جہاں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ۔
اس آیت کو ظلمات سے نکالنے کی اس مولانا کےہاں وسعت اور مفہوم کے تحت کس معنی میں لیا جائے گا؟ سراسر غلط تشریح کر رہا ہے۔ واللہ اعلم
فضیلۃ العالم امان اللہ عاصم حفظہ اللہ