سوال (5605)
نبی ﷺ کے دور سے پہلے جو نبی گزرے ہیں ان کی شریعتوں میں شراب کیا حرام نہیں تھی اور رسول اللہ ﷺ کے دور میں یہ حرام قرار دی گئی تھی؟ اس پہ سوال کیا گیا ہے کہ اگر اوپر والی بات درست ہے تو کیا نبیوں کی کھانے کی میزوں تک بھی نعوذ باللہ شراب پہنچ جاتی تھی؟
جواب
پیارے بھائی آپ کی پہلے بات ہی درست نہیں کہ پہلی شریعتوں میں شراب حلال تھی۔
ہمیں شریعت سے عمومی طور پہ یہی پتا چلتا ہے کہ پہلی شریعتوں میں بھی شراب حرام ہی تھی اور ابراھیم اور اسماعیل کے دین میں بھی ایسے ہی ہو گا مگر جیسے ابراھیم شرک کے سخت دشمن تھے مگر لوگوں نے انہیں کی تصاویر بنا کر کعبہ میں شرک شروع کیا ہوا تھا تو انکے دین کو بدل کر شراب بھی حلال کر دی ہو گی۔
پہلی شریعتوں میں شراب کے حرام ہونے کی دلیل بنی اسرائیل کی کچھ روایات ہیں جن کو البانی رحمہ اللہ نے سلسلہ صحیحہ میں لیا ہے۔
مثلا: بنی اسرائیل کے ایک بادشاہ نے ایک شخص کو پکڑ کرچار میں سے ایک برائی کے کرنے کا حکم دیا، نہ کرنے پر قتل کی دھمکی دی۔ کہ وہ شراب پئیے یا کسی عورت کے ساتھ بدکاری کرے، یا کسی کو قتل کرےیا خنزیر کا گوشت کھالے۔ اس نے شراب کو سب سے ہلکا جانتے ہوئے اس کے پینے کو اختیار کرلیا۔ جب اس نے شراب پی لی تو بد مست ہو کر اس نے بدکاری بھی کی، قتل بھی کیا، اور خنزیر کا گوشت بھی کھایا۔ (سلسلۃ الصحیحۃ: 2695)
اسی طرح دوسری نسائی کی حدیث نمبر 5666 میں ہےکہ ایک عورت ایک شخص پر فریفتہ ہوگئی اور بہانے سے گھر بلوالیا، اور اسے بدکاری، بچے کے قتل، اور شراب میں سے ایک کام کو اختیار کرنے کا کہا اور نہ کرنے پر دھمکی دی کہ وہ وایلا کرکے اس پر الزام لگائےگی۔ اس شخص نے عزت بچانے کے لیے سب سے ہلکا جانتے ہوئے شراب کو اختیار کیا، اور شراب پی لی۔نتیجتاً وہ بد مست ہوکر بقیہ گناہوں کا بھی مرتکب ہوگیا۔
پس ہمیں یہی پتا چلتا ہے کہ پہلی شریعتوں میں بھی شراب حرام ہی ہو گی۔
اس وضاحت کے بعد سوال کے دوسرے حصے کے جواب کی ضرورت ہی نہیں رہتی ہے کیونکہ شراب حرام ہونے کی وجہ سے وہ نبی کے دسترخوان پہ کیسے پہنچ سکتی ہے۔
فضیلۃ العالم ارشد حفظہ اللہ