سوال (5797)
شیوخ عظام، کیا یہ باتیں، خصوصا پیرا گراف کی آخری لائینیں (سیدنا علی کی خلافت کے بارے میں) درست ہیں؟: سب سے پہلے مسلمانوں کی جماعت سے خوارج ایک فرقہ بن کر نکلے، پھر مرجئہ، پھر واقعہ کربلا کے بعد مختار ثقفی کہ قیادت میں پہلا امامیہ شیعہ فرقہ نکلا جسے کیسانیہ کہتے ہیں، اس کے بعد عباسیوں کے دور میں اسماعیلی شیعہ فرقہ بنا اور آخر میں بارہ امامیہ۔ اسی طرح معتزلہ ایک فرقہ بن کر نکلے۔ جو لوگ ان میں سے کسی فرقے میں نہیں گئے، انھوں نے اپنا نام اہلِ سنت رکھ لیا، یوں غیر ارادی طور پر اہلِ سنت ایک جماعت بن گئی۔ رفتہ رفتہ اہلِ سنت نے اپنے عقائد اور موقف طئے کرنے شروع کیے، یعنی سنّیت کی روایت تشکیل پانے لگی اور اس تشکیل کے دوران سیدّنا علی کو چوتھا خلیفہ راشد بطور عقیدہ مانا گیا یعنی ایک سیاسی موقف کو بھی عقائد کے حصے کے طور پر تسلیم کر کے سنّی روایتی عقائد میں شامل کیا گیا۔
جواب
میرے نزدیک یہ سوال ابہام رکھتا ہے، سائل کیا کہنا چاہتا ہے، اس کی وضاحت ہو، اس کو آپ عقیدہ کہیں یا نظریہ کہیں، متفقہ طور پر یہ بات اہل سنت کے ہاں پائی گئی ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ چوتھے خلیفہ ہیں، اس کو عقیدہ یا فقہ کہیں تو درست ہے، سیاست بھی درست ہے، کیونکہ اسلامی سیاست درست ہے، علی نھج النبوۃ سیاست جائز ہے، اس میں پریشان ہونے کی بات نہیں ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
سائل: شیخ محترم یہ باتیں ایک تحریر میں ابھی ابھی پڑھی ہیں تو ان کی درستی جاننے کے لیے پوچھا ہے، (آیا اس نکتے پر صاحب تحریر جیسا ذہن رکھنا عقیدے کے خلل کا باعث بن سکتا ہے) تحریر کافی لمبی تھی اس کا جو حصہ مجھے مشکوک لگا اس سے متعلق سوال کیا ہے۔ جزاکم اللہ خیرا
جواب: یہی میں نے وضاحت کی ہےکہ سوال میں ابہام ہے، یہ کسی شخص نے لکھی ہوگی، جو مشکوک یا ناصبی ہوگا۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ