سوال (671)

آج ایک دیوبندی عالم دین کا ایک پروگرام سن رہا تھا جس میں انہوں نے کہا کہ اگر کوئی شخص سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو سیاسی طور پر پہلا خلیفہ مانتا ہے تو کوئی مسئلہ نہیں ہے کیونکہ صحابہ کرام میں بھی لوگ موجود تھے جو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو پہلا خلیفہ سمجھتے تھے کیا یہ بات درست ہے ؟ یہ بھی بتائیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے باہمی اختلافات کے بارے میں عام مسلمان کا موقف کیا ہونا چاہیے..؟
کیونکہ کچھ لوگ یہ بات بڑے وثوق سے کہتے ہوئے پائے گئے ہیں کہ اگر ہم اس دور میں ہوتے تو فلاں صحابی کے لشکر میں ہوتے۔ جیسا کہ حضرت معاویہ اور حضرت علی کے باہمی اختلافات ہوئے ہیں۔ آیا ایسا کہنا جائز ہے؟

جواب

میرے خیال میں اس بات کو یوں لیا جائے کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیعت سے پہلے شاید یہ بات کچھ لوگوں کے ذہن میں ہو ، شاید سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور سیدنا عباس رضی اللہ عنہ بھی یہ سمجھتے تھے ، بیعت اول اور خلافت اول سے پہلے پر اس بات کو مقید کردیا جائے ، پھر شاید کوئی گنجائش نکل آئے ، لیکن عوامی لحاظ سے اس کو اچھالنا نہیں چاہیے۔
دیکھیں 1444 سال گزرنے کے بعد ہمیں خیر القرون کے احباب کے بارے اس طرح لب کشائی نہیں کرنی چاہیے ، کسی کے دل میں ہو تو وہ اپنے دل میں رکھے لیکن محراب و منبر اور تحریر و تقریر میں اس کی اجازت نہیں دی جاسکتی ہے ، کہ اس دور ہوتے تو اس لشکر میں ہوتے اور یوں کردیتے ۔ وہ اللہ تعالیٰ کے منتخب شدہ لوگ تھے ، یہ بات طے شدہ ہے کہ جو وہ کرسکے وہ بعد والے نہیں کرسکتے ہیں ، ان کا بعد کے ساتھ مقابلہ ہی نہیں ہے ۔
باقی شیخ ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ کی کتاب “مشاجرات صحابہ میں سلف کا موقف” وہ کتاب ایک مرتبہ پڑھ لی جائے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

یہ بات بالکل غلط ہے۔
أولاً : سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کی بیعت ہو جانے کے بعد کون سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو پہلا خلیفہ سمجھتے تھے اور انہوں نے سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کی بطورِ خلیفہ اول بیعت نہیں کی؟
ثانياً : اگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مابین اختلاف ہو بھی تو جب وہ بالآخر متفق ہو جائیں تو اختلاف سے حجت پکڑ کر عقائد نہیں بنائے جاتے۔ ایسے تو سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کی بیعت سے قبل یہ بات بھی ہوئی تھی کہ انصار کا اپنا امیر ہو اور مہاجرین کا تو پھر اس طرح بڑھتے بڑھتے سب کو حق دیتے جائیں کہ جیسے دل کرے آپ خلیفہ اول مانتے جاؤ ۔
ثالثاً : اگر پہلے کسی چیز میں اختلاف ہو بھی جائے لیکن بعد میں اس پر امت کا اجماع ہو تو اُس سے انحراف نہایت مذموم ہے ۔

فضیلۃ الباحث حافظ محمد طاہر حفظہ اللہ