سوال (889)
عرب علماء میں سے ایک عالم دین نے سجدہ کے متعلق پہلے گھٹنے رکھنے بعد میں ہاتھ رکھنے والی روایت بیان کی ہے ، کیا یہ درست ہے؟
جواب
ہاتھ پہلے رکھنے چاہیے یا گھٹنے؟اس حوالے سے مرفوع روایت ثابت نہیں۔ نہ حدیث ابو ھریرہ اور نہ حدیث ابو وائل اور نہ ہوئی اور “کما یبرک البعیر” والی روایت غیر ثابت ہے۔ والامر فیہ واسع۔جیسے میسر ہو آسانی ہو کر سکتے ہیں۔جیسے کہ ابن باز ، عثیمین اور دیگر علماء کی رائے ہے۔
حافظ ابن القیم رحمہ اللہ نے حدیث ابو ھریرہ کو تین وجہ سے ضعیف قرار دیا ہے۔
(1) : اس میں قلب ہوا ہے ، حالانکہ انھوں نے ثابت نہیں کیا کہ کن روات سے قلب واقع ہوا۔
بس کہا قلب ہوا اور قلب کی مثالیں دوسری احادیث سے دیں
(2) : یہ حدیث وائل کے خلاف ہے۔ (جبکہ حدیث وائل اس باب میں خود ضعیف ہے)
(3) : منسوخ ہے۔ جس حدیث سے دلیل لی حدیث مصعب،اسے خود معلول قرار دیا ہے۔
معنوی بحث بھی کی جس میں انہیں غلطی لگی کہ اونٹ کے گھٹنے اگلی ٹانگوں میں نہیں ہوتے یعنی ہاتھوں میں ، اس پر اھل لغت کا کلام نہیں ملتا ہے ،جبکہ معاملہ برعکس ہے اس پر اھل علم اھل لغات تقریبا متفق ہیں کہ چوپاوں کے گھٹنے ان کے ہاتھوں میں ہوتے ہیں۔
صحیح یہ ہے یہ جتنی باتیں انھوں نے کی ہیں اس سے حدیث معلول قرار نہیں پاتی۔
اصل وجہ وہی جو انھوں نے آخر پر حدیث ابو ھریرہ پر دوبارہ کلام کرتے ہوئے بیان کی کہ آئمہ حدیث (جن میں امام بخاری امام دارقطنی اور امام ترمذی شامل ہیں) نے اس حدیث کو محمد بن عبد اللہ بن حسن ہے تفرد کی وجہ سے معلول قرار دیا ہے۔
اور بعض رواۃ نے یہ زیادت ذکر نہیں کی کہ وہ گھٹنوں سے پہلے ہاتھ رکھتے۔ جیسا کہ سنن نسائی کی حدیث ذکر کی.(زاد المعاد)
اس پر اضافہ یہ ہے امام بخاری نے تفرد اور عدم سماع کی وجہ سے ضعف کی طرف اشارہ کیا۔ تفرد مضر کیوں ہے اس کے اسباب و وجوہات کے لئے دیکھیے طریفی حفظہ اللہ کی علل احادیث الاحکام
دوسرا اس حدیث کے رفع و وقف میں اختلاف ہے۔
صحیح بات یہی ہے (جیسا کہ السری سقطی نے اپنی کتاب غریب الحدیث میں روایت کیا ) یہ روایت موقوف ہے۔
اور اس کے الفاظ ہیں
“لا یبرک احدکم کما یبرک البعیر الشارد”
ان الفاظ سے ایک نکتہ اور بھی سمجھ آتا ہے جسے الشیخ عبدالکریم خضیر حفظہ اللہ نے بیان کیا۔
کہ اصل میں اس حدیث میں گھٹنے یا ہاتھ وغیرہ کی تقدیم و تاخیر کا مسئلہ بیان نہیں ہوا بلکہ معنی یہ کہ سکینت و اطمینان سے سجدے میں جاؤ۔
فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ
ابن عثیمین رحمہ اللہ تقدیم الرکبتین کے قائل ہیں اور غالبا ابن باز رحمہ اللہ بھی ۔
فضیلۃ الباحث داؤد اسماعیل حفظہ اللہ
فتاوی ابن باز میں کہا کہ دونوں طرح درست ہے ، جیسے مناسب اور آسانی ہو
فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ
ترجیح اور جواز میں فرق ہے ، شیخین کی طرف آپ نے مطلقا نسبت کر دی ہے کہ جیسے آسانی ہو کر لے ، حالانکہ شیخ ابن عثیمین نے الشرح الممتع میں دلائل سے تقدیم الرکبتین والے موقف کو ثابت کیا ہے ۔
فضیلۃ الباحث داؤد اسماعیل حفظہ اللہ
جی بالکل وہ ترجیح دیتے ہیں لیکن جواز کے قائل ہیں۔
فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ
سجدے میں جاتے ہوئے پہلے ہاتھ رکھنے یا پہلے گھٹنے رکھنے ہیں اس بارے میں کوئی مرفوع حدیث ثابت نہیں ہے ، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے پہلے گھٹنے رکھنا ثابت ہے مصنف ابن ابی شیبہ میں ، سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے پہلے ہاتھ رکھنا مروی ہے لیکن اس سندمیں بھی صحیح نہیں ، جمہور علماء پہلے گھٹنے رکھنے کے قائل ہیں جیسا کہ امام ترمذی، امام ابن المنذر ، امام البغوی اور حافظ ابن رجب رحمۃ اللہ علیہم نے کہا ہے۔
فضیلۃ الباحث واجد اقبال حفظہ اللہ