سوال (3461)

کیا صلاۃ التوبہ ثابت ہے؟

جواب

سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ میں ایسا شخص تھا کہ جب میں رسول اللہ ﷺ سے کوئی حدیث سنتا تو اللہ تعالیٰ مجھے اس سے جو چاہتا فائدہ عنایت فرماتا۔ اور جب کوئی اور صحابی حدیث بیان کرتا، تو میں اس سے قسم لیتا تھا اور جب وہ قسم اٹھاتا تو میں اس کی تصدیق کرتا تھا۔ کہا: مجھ سے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی اور انہوں نے سچ کہا،انہوں نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو سنا آپ ﷺ فرما رہے تھے ’’کوئی بندہ ایسا نہیں جو کوئی گناہ کر بیٹھے پھر وضو کرے اچھی طرح، پھر کھڑا ہو اور دو رکعتیں پڑھے اور اللہ سے استغفار کرے، مگر اللہ اسے معاف کر دیتا ہے۔پھر آپ نے یہ آیت پڑھی

((والذین إذا فعلوا فاحشة أو ظلموا أنفسهم ذکروا الله*))

’’متقی وہ لوگ ہیں جو اگر کبھی کوئی بے حیائی کا کام کریں یا اپنی جانوں پر کوئی ظلم کر بیٹھیں،تو اللہ کو یاد کرتے اور اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں۔ اور اللہ کے سوا اور کون ہے جو گناہ بخش دے۔ اور یہ لوگ جانتے بوجھتے اپنے کیے پر نہیں اڑتے اور نہ اصرار کرتے ہیں۔‘
[سنن ابوداؤد: 1521, سندہ حسن]

فضیلۃ الشیخ عبد اللہ یوسف الذھبی حفظہ اللہ

جب گناہ ہوجائے، وضو کرکے دو رکعت نماز “صلاۃ التوبہ” پڑھ کر دعا کرنا ثابت ہے, [ترمذی : 406 سند,حسن.]
صلاۃ، توبہ کی نیت سے دو رکعت پڑھنے کا طریقہ عام نماز کی طرح دو رکعت پڑھنے کا ہی ہے. مطلب اس کا کوئی الگ سے عام نماز سے طریقہ مختلف نہیں.
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فضیلۃ الباحث احمد بن احتشام حفظہ اللہ