سوال (2410)
کیا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ خود کو اہل حدیث کہتے تھے؟
جواب
دورہ صحابہ کرام رضوان الله تعالی علیھم اجمعین میں کوئی مستقل گروہ جیسے آج بہت سے فرقے ہیں بالکل نہیں تھے، اس لیے ایسا کہلانے کی ضرورت ہی نہیں تھی، جیسے صحابہ کرام کے عہد میں سند کے بارے اور صحت حدیث کے بارے میں نہیں پوچھا جاتا تھا، البتہ جب تابعین کے زمانہ میں فتنہ وضع حدیث شروع ہوا تو سند کے بارے میں پوچھا جانے لگا روایت بیان کرنے والے کو خوب دیکھا اور پرکھا جانے لگا حدیث کے صحیح اور وضعی،ضعیف کا فرق کیا جانے لگا اور یہ سب صرف حفاظت حدیث رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کے لیے تھا کہ معلوم ہو جائے کہ کونسی حدیث رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم ہے اور کونسی حدیث رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نہیں ہے، تو جب بہت سے دین اسلام کے نام پر فرقے وجود میں آئے تو محدثین کرام نے فتنہ وضع حدیث کی روک تھام کے لیے کہاں اصول و قواعد متعارف کرواے وہیں پر انہوں نے دیگر اہل بدعت اور اہل حق میں امتیاز رکھنے اور جاننے کے لیے خود کو أهل الحديث،أهل السنة،أصحاب الحديث جیسے صفاتی ناموں کے ساتھ موصوف کیا تا کہ معلوم ہو جائے کہ یہی دین اسلام، قرآن وحدیث کے صحیح ترجمانی کرنے والے اور ان پر عمل پیرا ہونے والے ہیں انہیں ہی سلف صالحین بھی کہا جاتا ہے
تو آج بھی اسی امتیاز اور فرق کے لیے اہل حدیث خود کو کہلانا اور بتانا ضروری ہے تا کہ معلوم ہو یہی وہ لوگ ہیں جو منہج محدثین وسلف صالحین کی ترجمانی کرنے والے اور صحیح معنوں میں قرآن وحدیث پر عمل پیرا ہونے والے ہیں۔
تو جس طرح دفاع حدیث رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کے لیے صحت وضعف معلوم کرنے کی شرائط وقواعد محدثین کی ضرورت واہمیت ہے اسی طرح اتنے سارے فرقوں میں امتیاز کرنے کے لیے خود کو اہل حدیث کہلانا بھی از حد ضروری ہے۔
یاد رکھیں اہل حدیث ہی اصلی اہل سنت ہیں اور یہ کوئی فروہ نہیں ہے۔
جیسے صحابہ کرام رضوان الله تعالی علیھم اجمعین وسلف صالحین قرآن وحدیث پر عمل پیرا تھے آج اہل حدیث بھی ویسے ہی قرآن وحدیث پر عمل پیرا ہیں ہمارا عقیدہ وایمان آج بھی وہی ہے جو صحابہ کرام وسلف صالحین کے ہاں متفقہ طور پر موجود تھا البتہ فروعی مسائل میں ہم دلائل کی روشنی میں راجح کو قبول کرتے ہیں اور مرجوح کو ترک کر دیتے ہیں
اہل حدیث میں شخصیت پرستی ہرگز موجود نہیں ہے نہ ہی مسلک اہل حدیث شخصیت پرستی کا نام ہے۔
هذا ما عندي والله أعلم بالصواب
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ