سوال (6069)

اگر ایک چھوٹا بچہ کسی کو کوئی مالی نقصان پہنچائے تو کیا اس پر نقصان دینا لازم ہے اور اگر لازم ہو تو یہ خود دے گا یا اسکے اولیاء سے لیا جائیگا؟

جواب

بچوں کی تربیت والدین کی ذمے داری ہے، اگر بچے نے نقصان کیا ہے، تو والدین بڑے ہیں، وہ نقصان والدین سے پورا کیا جائے گا، ہمارے ہاں یہ سلسلہ عام ہے کہ بچہ جو بھی کرے، ہم اس کو بچہ ہونے کی وجہ سے کچھ نہیں کہتے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت بچوں کے حوالے سے ایسی نہیں تھی، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم روک تھام کرلیا کرتے تھے۔

يا غلامُ، سمِّ اللهَ، وكُلْ بيمينِكَ، وكُلْ ممَّا يليكَ» [صحیح بخاری، صحیح مسلم]

“اے بچے! اللہ کا نام لو، دائیں ہاتھ سے کھاؤ، اور اپنے سامنے سے کھاؤ۔”
اس حدیث سے استدلال ہوتا ہے، بچے کو غلطی پر روکا جا سکتا ہے۔
بچے نے نقصان کیا ہے، والدین نے ایسی تربیت نہیں کی ہے تو والدین ذمے دار ہیں، کچھ لوگوں کی سوچ ہے کہ بچوں کو کچھ نہ کہیں۔ آج ان کے بچے ان کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں، اس لیے اس معاملے میں احتیاط کی ضرورت ہے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

شیخ محترم آپ نے جو ایک چیز پہ زور دیا ہے کہ اگر والد نے بچے کی تربیت درست نہیں کی تب والد کو نقصان پورا کرنا ہو گا تو غلطی سے اس کا مفہوم مخالف یہ نکالا جا سکتا ہے کہ اگر والد نے اچھی تربیت کی ہو تو روڈ ایکسیڈنٹ میں اس سے کوئی نقصان ہو جائے تو پھر اس کو جرمانہ نہیں دینا ہو گا یا اسی طرح اگر اولاد باپ کے پاس ہوتی ہی نہ ہو بلکہ کسی اور نے پالا ہو تو پھر بھی جرمانہ نہ ہو گا کسی کو یہ غلط فہمی لگ سکتی ہے۔
میرے خیال میں تو والد یا والدہ نہ ہو تو دوسرا عصبہ اس نقصان کو پورا کرے گا چاہے اپنے سے یا اسی اولاد کی مستقبل کی وراثت سے آپ تھوڑی وضاحت کر دیں تاکہ سب کو بات کلیئر ہو جائے۔ جزاکم اللہ خیرا

فضیلۃ العالم ارشد حفظہ اللہ

میں نے والد کا نام اس لیے لیا ہے، کہ عام طور پر بچے والدین کے پاس ہوتے ہیں، اگر کسی کی والدین نے تربیت نہیں کی ہے تو وہ اس کے ذمے دار ہیں، یہ طے شدہ بات ہیں، کہ نقصان کرنے والا بچے میں والدین کی عدم تربیت کا عمل دخل ہے، تو وہ تربیت نہ کرنے والے ذمے دار ہیں۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

بچے عام طور مکلف نہیں ہیں۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

“رُفِعَ الْقَلَمُ عَنْ ثَلَاثَةٍ:‏‏‏‏ عَنِ النَّائِمِ حَتَّى يَسْتَيْقِظَ، ‏‏‏‏‏‏وَعَنِ الْمُبْتَلَى حَتَّى يَبْرَأَ، ‏‏‏‏‏‏وَعَنِ الصَّبِيِّ حَتَّى يَكْبَرَ” [سنن ابي داود: 4398]

«تین شخصوں سے قلم اٹھا لیا گیا ہے، سوئے ہوئے شخص سے یہاں تک کہ وہ بیدار ہوجائے، دیوانہ سے یہاں تک کہ اسے عقل آجائے، اور بچہ سے یہاں تک کہ وہ بالغ ہوجائے»
لیکن تعلیم و تربیت کی ذمے داری والدین اور سرپرستوں کی ہے، اگر ایسا بچہ کسی کا نقصان کر دیتا ہے، وہ نقصان بڑا معمولی سا ہے، اس کو برداشت کرلیتے ہیں، کسی کا عضو تلف کردیتا ہے، کسی کا بھاری نقصان کر دیتا ہے، تو پھر اس میں تفصیل ہے، اس بچے کے پاس مال ہے تو اس بچے کے مال سے بطور دیت پیسے نکال کر سرپرست دیت ادا کرے گا، یا پھر والدین کے ذمے ڈال دیا جائے گا، یا خاندان پر ڈال دیا جا سکتا ہے، اگر ایسا کوئی معاملہ آجائے تو علاقائی سطح پر حل کرنا چاہیے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ