سوال       (135)

کیا اسٹاک ایکسچینج کا کام سود کا ہوتا ہے ۔میرا ایک دوست مجھے کہہ رہا ہے کہ آپ چار ، پانچ لاکھ انویسٹ کرلیں تو آپ کو ستائیس اور اٹھائیس ہزار منتھلی ملے گا ، میں نے کہا ہے کہ معلوم کرلوں اگر یہ سود ہے تو مجھے نہیں کرنا ہے ۔

جواب

  اسٹاک ایکسچینج کو نہ ہم مطلقا حلال کہتے ہیں اور نہ ہی حرام کہتے ہیں ، یہ اپنی شرعی شرائط کے ساتھ حلال ہے ، اگر وہ شرعی شرائط مفقود ہونگی تو حرام ہو جائے گا ، اس کے دونوں پہلو ہیں ۔

اس کا خلاصہ یہ ہے کہ کمپنیاں جو ہوتی ہیں ، ان کے کئی حصے بنائے جاتے ہیں ، اور وہ لوگوں کو فروخت کرکے دعوت عام دی جاتی ہے کہ آپ اس میں شریک ہوجائیں ، اس میں دعویٰ تو مضاربت و مشارکت کا کیا جاتے ہے ، لیکن جو مضاربت کے شرعی اصول ہیں ، وہ اس میں دیکھائی نہیں دیتے ہیں ۔ بعض اوقات چیز ہاتھ میں ہی نہیں ہوتی ہے سودے چل رہے ہوتے ہیں ، گڈ ویل کے نام سے معاملات بگاڑے جاتے ہیں۔

بہرحال بڑا محتاط معاملہ ہے ، شبہ اس میں واضح پایا جاتا ہے اور ظلم، نقصان، سٹہ  اور غرر کا بھی معاملہ پایا جاتے ہے۔ اتنی آسانی سے اس کو ہم بہرحال جائز نہیں کہہ سکتے ہیں ۔

اس کے لیے کسی مدرسے  یا جامعہ میں سوال نامہ جاری کردیں یا نیٹ پر تلاش کریں ۔

کمپنی کے شئیرز ہلوڈر بنانے کے لیے وہ کمپنی جائز ہو ، سودہ جائز ہو ، شرائط جائز ہوں ، سرمایہ کس طرح کا ہے وہ بھی دیکھا جائے گا ، سرمایہ کا صرف دعویٰ ہے یا ملکیت میں بھی کوئی چیز ہے ۔ یہ تمام شرائط و ضوابط دیکھے جائیں گے ۔ جنرلی طور پہ یہ ہے کہ غرر ، دھوکہ اور جوئے سے خالی نہیں ہے ، لہذا بچنا چاہیے جب تک آپ بڑا فتویٰ لے کے مطمئن نہ ہوں۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

ایک کی محنت اور دوسرے کی انویسمنٹ کی شراکت داری مضاربت کہلاتی ہے، سوال کی صورتحال کے مطابق انویسٹ کرنے والے کو ماہانہ مقرر نفع ملنا ہے جو کہ اس لحاظ سےغلط ہے کہ گویا یہ قرض پر نفع اٹھانے کی صورت ہے ، جبکہ پارٹنرشپ میں نفع و نقصان میں برابری ضروری ہے ۔ البتہ اگر ایسا ہو کہ ہر ماہ کے نفع میں سے باہمی رضامندی سے فیصد طے کر لیا جائے اور اگر نفع نہ ہو تو انویسٹر کو کچھ نہ ملے اور محنت کرنے والے کی محنت ضائع ہو تو اس اصول کے مطابق یہ مضاربت صحیح ہوگی لیکن دیگر شرعی حدود و قیود کا بھی خیال رہے جن میں سے کچھ کی طرف شیخ عبد الوکیل ناصر صاحب حفظہ اللہ نے اشارے دییے ہیں ۔ واللہ اعلم

فضیلۃ الشیخ فہد انصاری حفظہ اللہ