سوال (1273)
کیا سورہ فاتحہ نماز میں سکتوں کے ساتھ پڑھنی چاہیے ، دوسری بات ٹھہر ٹھہر کر پڑھنے کو بھی سکتہ ہی کہا جاتا ہے یا سکتہ اور ٹھہر کر پڑھنے میں فرق ہے؟
جواب
مقتدی سورۃ فاتحہ پڑھنے میں آزاد ہے ، پہلے پڑھے یا امام کے ساتھ پڑھے ،يا بعدمیں پرھنے ہر صورت میں جائز ہے ، وہ اپنی فاتحہ کا پابند ہے ، اس کے بغیر اس کی نماز نہیں ہوگی ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قراءت کے بارے میں آتا ہے کہ ہر آیت پر آپ وقف کرتے تھے ، اس کو بھی سکتے سے تعبیر کیا جاتا ہے ، بس اتنا ہو کہ پیچھے والا پڑھ لے ، ٹھیک ہے ایک صورت بنتی ہے تو صحیح ہے ، لیکن یہ لازم نہیں ہے ، فرض کے درجے میں نہیں ہے ، استحباب بھی بمشکل ثابت ہوتا ہے ، مقتدی اپنی قرآت میں آزاد ہے ، اگر “جزء القراءة ” امام بخاری کی پڑھ لیں ، لہذا جس طرح بھی فاتحہ پڑھنی ہے ، پڑھ لینی چاہیے ، جماعت المسلمین نے خاص سکتہ نکالا ہوا ہے ، پوری قراءت مکمل کرکے لمبا سکتہ نکالا ہوا ہے ، یہ بھی بلا دلیل ہے ، سکتہ بمعنی خاموشی بھی بلا دلیل ہے .
کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے ۔
سیدنا ابوھریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
” كان رسول الله صلى الله عليه وسلم، إذا كبر في الصلاة، سكت هنية، قبل ان يقرا، فقلت: يا رسول الله، بابي انت وامي، ارايت سكوتك بين التكبير والقراءة، ما تقول؟ قال: اقول: اللهم باعد بيني وبين خطاياي، كما باعدت بين المشرق والمغرب، اللهم نقني من خطاياي، كما ينقى الثوب الابيض من الدنس، اللهم اغسلني من خطاياي بالثلج والماء والبرد “. [صحيح مسلم : 598]
رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب (آغاز) نماز کے لیے تکبیر کہتے تو قراءات کرنے سے پہلے کچھ دیر سکوت فرماتے، میں نےعرض کی: اے اللہ کے رسو ل! میرے ماں باپ آپ پر قربان! دیکھیے یہ جو تکبیر اور قراءت کے درمیان آپ کی خاموشی ہے (اس کے دوران میں) آپ کیا کہتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: “میں کہتا ہوں:
“اللهم باعدبینی وبین خطایای کما باعدت بین المشرق والمغرب اللهم نقنی من خطایای کما ینقی الثوب الابیض من الدنس، اللم اغسلنی من خطایای بالثلج والماء والبرد”.
اے اللہ! میرے اور میرے گناہوں کے درمیان اس طرح دوری ڈال دے جس طرح تونے مشرق اور مغرب کے درمیان دوری ڈالی ہے۔اے اللہ! مجھے میرے گناہوں سے اس طرح پاک صاف کر دے جس طرح سفید کپڑا میل کچیل سے صاف کیا جاتا ہے۔ اے اللہ! مجھے میرے گناہوں سے پاک کر دے برف کے ساتھ، پانی کےساتھ اور اولوں کے ساتھ۔”
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
سائل : امام کو فاتحہ کی قراءت سکتہ سے کرنے کی کوئی پابندی ہے یا نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی قراءت فاتحہ سکتوں سے ہوتی تھی ؟
جواب : مقتدی کو عموما قراءت میں سورۃ فاتحہ کی اجازت ہے ، پہلے پڑھے ، بعد میں پڑھے ، کوئی حرج نہیں ہے ، وہ اپنی قراءت کا ذمے دار ہے اس کے بغیر اس کی نماز نہیں ہے ، سری پڑھے گا ، باقی اس طرح سے قراءت ہوتی ہے ، جس میں ہر آیت میں وقف ہوتا ہے ،او ر وہ اس میں پڑھ لیتا ہے ،تو ٹھیک ہے ، اس میں کوئی پابندی نہیں ہے ۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
سائل : میں امام کے بارے پوچھنا چاہ رہا ہوں کہ اسے کوئی قید ہے کہ وہ قراءت سکتوں کی صورت میں کرے اور نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی قراءت فاتحہ کیسی ہوتی تھی سکتوں کے ساتھ یا ٹھہر ٹھہر کر ؟
جواب : امام پر کوئی پابندی نہیں ہے ، البتہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قراءت جو عمل و فعل سے ملتی ہے ، وہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر آیت پر وقف کرتے تھے ، وقف کے ساتھ پڑھا کرتے تھے ، چھوٹی سورتوں کو لمبا کیا کرتے تھے یہ بھی ملتا ہے ، اس طرح اگر قراءت کی جائے تو اس سے بہتر کیا چیز ہے ۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
اگر امام کی فاتحہ مکمل ہونے سے پہلے بھی پڑھ لے تو حرج نہیں ہے ، اسی پر سیدنا ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ کا فتویٰ ہے ۔
فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ