سوال 5094:

قرآن میں مذکور ہے کہ مدینہ میں بعض منافقین ایسے تھے جن کا علم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی نہ تھا، تو کیا طبقہ صحابہ میں بھی یہ احتمال موجود نہیں رہ جاتا کہ کوئی صحابی ان مجہول منافقین میں سے ہو؟ پھر ہم کیسے کہتے ہیں کہ صحابہ تمام عدول ہیں اور صحبت کا ثبوت ہی ان کی عدالت کے لیے کافی ہے، تحقیق کی ضرورت نہیں؟

جواب

سب سے پہلے تو میرے بھائی، ایسے سوالات کے شر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنی چاہیے، کیونکہ یہ شیطانی وسوسے ہوتے ہیں۔ اہلِ تشیع، روافض، مستشرقین، ملحدین، تشکیک پھیلانے والے، متجددین، اخوانی حضرات اور جماعت اسلامی کے متاثرین کے ہاں ایسے سوالات بہت عام پائے جاتے ہیں۔

پہلی بات تو یہ کہ اس آیت کا حوالہ دیں جس میں کہا گیا ہے کہ مدینہ میں کچھ منافقین ایسے تھے جن کا علم اللہ کے نبی ﷺ کو بھی نہ تھا۔ جب آیت کا ریفرنس دیں۔ تاکہ ہم مفھوم سمجھ سکیں کہ واقعتاً یہی بات ہے۔

دوسری بات یہ کہ اگر اس آیت سے یہ احتمال نکالا جا رہا ہے کہ کوئی صحابی بھی ان “نامعلوم منافقین” میں شامل ہو سکتا ہے، تو یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے۔ قرآنِ مجید میں بہت سی آیات موجود ہیں جن میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تعریف، توصیف، مغفرت اور جنت کی بشارت دی گئی ہے۔ خاص طور پر سورۃ الحجرات کی وہ آیات جن میں اللہ تعالیٰ نے صحابہ کے دلوں کے تقویٰ کو جانچ لیا اور فرمایا کہ یہ سب کامیاب ہو گئے، اللہ ان سے راضی ہوا اور ان کے دلوں کو ایمان سے بھر دیا، اور کفر، شرک، نفاق اور نافرمانی سے پاک کر دیا۔

سورۃ الحشر کی آیات 9، 10، 11 اور قرآن کی سینکڑوں آیات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ صحابہ کرام خالص ایمان والے تھے۔ ایسے واضح دلائل کے بعد کسی صحابی پر نفاق یا کفر کا شک کرنا گویا قرآن کی آیات پر اعتراض کرنا ہے۔ نعوذ باللہ۔
اسی طرح نبی کریم ﷺ کی متعدد احادیث بھی صحابہ کے فضائل و ایمان پر دلالت کرتی ہیں۔ رضی اللہ عنہم و رضوا عنہ—اللہ ان سے راضی ہوا، اور وہ اللہ سے راضی ہو گئے—کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ منافقین سے راضی ہوا ہے، نعوذ باللہ۔ استغفر اللہ، یہ اتنا بڑا اعلان ہے کہ اس کے بعد کسی شک و شبہے کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔
اللہ ہمیں ایسے وساوس سے محفوظ فرمائے، آمین۔

فضیلۃ الشیخ فیض الابرار شاہ حفظہ اللہ

یہ دو لنک ملاحظہ ہوں:
(1): حول مفهوم عدالة الصحابة، وهل يقدح فيها وجود المنافقين، ومن أتى بمفسق كالوليد بن عقبة؟ – الإسلام سؤال وجواب https://share.google/1w6wDm52gSNSwJrEr
(2): المنافقون كانوا معروفين بأعيانهم أو بأوصافهم ولم يرووا حديثا واحدا فلا يقدح وجودهم في عدالة الصحابة – الإسلام سؤال وجواب https://share.google/vtdtbTU3uNOXGP2Ec

میں نے دو لنک ارسال کیے ہیں، امید ہے کہ آپ مطالعہ فرمائیں گے۔ اور یہ اہلِ علم و طلبۃ العلم کے لیے ہے، نہ کہ مناظرہ کرنے والے، مناقشہ کرنے والے، مباحثہ و مجادلہ کرنے والوں کے لیے، جن کے دلوں میں کجی ہے، کج روی ہے، آیاتِ متشابہات کو لے کر سمجھتے ہیں کہ ہم نے بہت بڑا تیر مارا ہے۔
ڈاکٹر صاحب نے بہت اچھی بات ارشاد فرمائی کہ مودودیت اور اس طرح کے جو گمراہ کن نظریات کے حامل لوگ ہیں، مسموم نظریات کے حامل، صحابہ کے بارے میں ان کی طرف سے اعتراضات ہوتے ہیں۔ یہ جو سوال ہے کہ صحابہ کی عدالت پر، یہ بھی اسی طرف سے آیا ہے۔ اگر کسی نے مودودیت کو تفصیل سے پڑھا ہے تو وہ جانتا ہے۔ دینِ اسلام کی رو سے منافقین کو اللہ جانتا تھا، جیسے ڈاکٹر صاحب نے ماشاءاللہ بہت اچھی وضاحت کی، تو کیا اللہ تعالیٰ نے جو “رضی اللہ عنہم و رضوا عنہ” کی ڈگریاں دی ہیں، “اولئک ہم الفائزون” کی ڈگریاں دی ہیں، “اولئک ہم الراشدون”، “حزب اللہ” کہا، تو کیا ان میں ان کو شامل کر کے کہا؟ نہیں۔ اللہ نے ڈگریاں دے دی ہیں۔ نبی کریم ﷺ کو ان کے بارے میں علم دے دیا گیا تھا۔ تو آخری فیصلہ وہی ہے۔ حتیٰ کہ صرف آپ ہی نہیں بلکہ حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کو بھی بتا دیا گیا تھا۔ وہ صاحبِ سرّ رسول ﷺ اسی وجہ سے مشہور تھے۔ حتیٰ کہ بعض میں روایات میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کسی کے جنازے میں جاتے تو دیکھتے کہ حضرت حذیفہ اس جنازے میں ہیں یا نہیں۔

تو اتنی بات واضح ہو جانے کے بعد بھی، متشابه آیات سے اور آیاتِ متشابہات سے اپنے مطلب کی چیزیں نکالنا، نعوذ باللہ، صحابہ کی عدالت پر اعتراض کرنا، یہ اپنے دل کے ٹیڑا پن کی علامت ہے۔

علمی طور پر بات سمجھ میں آ جائے گی۔ باقی رہ گیا مناقشہ، مناظرہ، تو وہ سامنے بیٹھ کر ہوتا ہے، اگرچہ اب اس کا دور نہیں رہا، لیکن اگر کسی کو شوق ہے، اور ہمارے ہاں بھی کچھ لوگ ایسے ہیں، تو ایسے لوگوں کو بٹھانا چاہیے اور ہم جیسے لوگ استفادہ کریں۔ لیکن پھر بات بہت دور تک جائے گی۔

کیونکہ ہم، الحمدللہ، مجموعی طور پر کوشش یہ کرتے ہیں کہ ان مسائل کو محراب و منبر تک لے جائیں، عوام تک لے جائیں، خواص تک پہنچائیں، جن مسائل کی اس وقت امتِ مسلمہ کو ضرورت ہے، من حیث القوم، من حیث الامۃ۔

لیکن ہمیں گھما پھرا کر وہی بارہ مسائل میں الجھا دیا جاتا ہے، اور پھر بعض فاختہ جیسے مضامین مزید فضا کو مقدر کر دیتے ہیں۔

بہرحال، فیصلہ تو یہاں نہیں ہوگا، فیصلہ اللہ کرے گا، لیکن کوئی یہ نہ سمجھے کہ بولنے والا کوئی نہیں، کہنے والا کوئی نہیں—سب کچھ ہو سکتا ہے، الحمدللہ۔ باقی ہماری کوشش یہی ہے کہ ہم مجادلہ کی طرف نہ جائیں۔”

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

لعنة الله على الرافضين الضالين بغير حساب

اس شیطانی سوال میں ہی جواب موجود ہے۔
جن کے نفاق کو ظاہر نہیں کیا گیا وہ منافق ہی تھے،
اور جن سے رب العالمین راضی ہو گئے وہ تمام مؤمنوں،راشدون،فائزون،مفلحون اور حزب الله تھے۔
رب العالمین کی رضوان وغفران منافقین کے لئیے ہرگز نہیں ہے۔
ارشاد باری تعالی ہے:

مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ ۚ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ ۖ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا ۖ سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِم مِّنْ أَثَرِ السُّجُودِ ۚ ذَٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ ۚ وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنجِيلِ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهُ فَآزَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَىٰ عَلَىٰ سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ ۗ وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْهُم مَّغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا

محمد ( صلی الله علیہ وسلم) الله کے رسول ہیں اور وہ لوگ جو ان کے ساتھ ہیں کافروں پر بہت سخت ہیں، آپس میں نہایت رحم دل ہیں، اپ انھیں اس حال میں دیکھیں گے کہ رکوع کرنے والے ہیں، سجدے کرنے والے ہیں، اپنے رب کا فضل اور (الله کی) رضا ڈھونڈتے ہیں، ان کی شناخت ان کے چہروں میں (موجود) ہے، سجدے کرنے کے اثر سے۔ یہ ان کا وصف تورات میں ہے اور انجیل میں ان کا وصف اس کھیتی کی طرح ہے جس نے اپنی کونپل نکالی، پھر اسے مضبوط کیا، پھر وہ موٹی ہوئی، پھر اپنے تنے پر سیدھی کھڑی ہوگئی، کاشت کرنے والوں کو خوش کرتی ہے، تاکہ وہ ان کے ذریعے کافروں کو غصہ دلائے، الله نے ان لوگوں سے جو ان میں سے ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے بڑی بخشش اور بہت بڑے اجر کا وعدہ کیا ہے۔
الفتح:(29)

اس آیت کی عمدہ تفسیر پڑھنے کے لئے الشیخ عبدالسلام بن محمد بھٹوی رحمة الله عليه کی تفسیر القرآن الکریم ملاحظہ فرمائیں۔

ایک اور ارشاد باری تعالی ہے:

وَلَٰكِنَّ اللَّهَ حَبَّبَ إِلَيْكُمُ الْإِيمَانَ وَزَيَّنَهُ فِي قُلُوبكُمْ وَكَرَّهَ إِلَيْكُمُ الْكُفْرَ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْيَانَ ۚ أُولَٰئِكَ هُمُ الرَّاشِدُونَ

اور لیکن الله نے تمھارے لیے ایمان کو محبوب بنا دیا اور اسے تمھارے دلوں میں مزین کر دیا اور الله نے کفر اور گناہ اور نافرمانی کو تمھارے لیے ناپسندیدہ بنا دیا، یہی لوگ ہدایت والے ہیں۔
الحجرات:(7)

رب العالمین کا ایک اور ارشاد ملاحظہ فرمائیں:

لا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَوْ كَانُوا آبَاءَهُمْ أَوْ أَبْنَاءَهُمْ أَوْ إِخْوَانَهُمْ أَوْ عَشِيرَتَهُمْ ۚ أُولَٰئِكَ كَتَبَ فِي قُلُوبِهِمُ الْإِيمَانَ وَأَيَّدَهُم بِرُوحٍ مِّنْهُ ۖ وَيُدْخِلُهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ ۚ أُولَٰئِكَ حِزْبُ اللَّهِ ۚ أَلَا إِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ

آپ ان لوگوں کو جو الله اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں، نہیں پائیں گے کہ وہ ان لوگوں سے دوستی رکھتے ہوں جنھوں نے الله اور ان کے رسول کی مخالفت کی، خواہ وہ ان کے باپ ہوں، یا ان کے بیٹے، یا ان کے بھائی، یا ان کا خاندان۔ یہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں الله نے ایمان لکھ دیا ہے اور انھیں اپنی طرف سے ایک روح کے ساتھ قوت بخشی ہے اور( الله ) انھیں ایسے باغوں میں داخل کریں گے جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہوں گی، ان میں ہمیشہ رہنے والے ہیں، الله ان سے راضی ہو گیے اور وہ الله سے راضی ہوگئے۔ یہ لوگ الله کی جماعت ہیں، یاد رکھو! یقیناً الله کی جماعت ہی وہ لوگ ہیں جو کامیاب ہونے والے ہیں۔
المجادلہ:(22)

یہ آیت مبارکہ اس مسئلہ پر قطعی دلیل ہے کہ تمام صحابہ کرام رضوان الله تعالی علیھم اجمعین ایمان پر قائم تھے اور ایمان پر ہی وہ فوت ہوئے
جب آپ قرآن کریم کو بغور پڑھیں گے تو آپ صحابہ کرام رضوان الله تعالی علیھم کے بارے کبھی اس طرح سے گندی سوچ نہیں لائیں گے۔

قرآن وحدیث اور امتہ مسلمہ کا اس مسئلہ پر اجماع ہے کہ تمام صحابہ کرام رضوان الله تعالی علیھم اجمعین ہدایت یافتہ،کمال ایمان والے تھے اور شرف صحابیت کے ساتھ ہی اپنے الله سے جا ملے۔

ابھی تم توبہ کر لو اور صحابہ جیسا ایمان لے آو کہ منافقین کو رب العالمین نے صحابہ جیسا ایمان لانے کا ارشاد فرمایا تھا:

وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آمِنُوا كَمَا آمَنَ النَّاسُ قَالُوا أَنُؤْمِنُ كَمَا آمَنَ السُّفَهَاءُ ۗ أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَاءُ وَلَٰكِن لَّا يَعْلَمُونَ

اور جب ان سے کہا جاتا ہے ایمان لاؤ جس طرح لوگ ایمان لائے ہیں، تو کہتے ہیں کیا ہم ایمان لائیں جیسے بے وقوف ایمان لائے ہیں؟ سن لو! بے شک وہ خود ہی بے وقوف ہیں اور لیکن وہ نہیں جانتے۔
البقرہ:13
البتہ اس سوال سے سوال کرنے والے کی خالص منافقت و بے ایمانی صاف ظاہر ہو رہی ہے۔

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ

سائل:
اس آیت کو پڑھا ہے۔

وَمِمَّنْ حَوْلَكُمْ مِنَ الْأَعْرَابِ مُنَافِقُونَ وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ مَرَدُوا عَلَى النِّفَاقِ لَا تَعْلَمُهُمْ نَحْنُ نَعْلَمُهُمْ سَنُعَذِّبُهُمْ مَرَّتَيْنِ ثُمَّ يُرَدُّونَ إِلَى عَذَابٍ عَظِيمٍ

جواب:
اس آیت میں کہاں ہے کہ اس میں صحابہ بھی تھے، کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ صحابہ کرام کے بارے میں یہ کہے گا

“نَحْنُ نَعْلَمُهُمْ سَنُعَذِّبُهُمْ مَرَّتَيْنِ ثُمَّ يُرَدُّونَ إِلَى عَذَابٍ عَظِيمٍ”

استغفر اللہ استغفر اللہ، یہ ایسی سوچ ہے کہ اس سوچ کو سننے کے ساتھ ہی استغفار اور تعوذ پڑھنا چاہیے۔

فضیلۃ الشیخ فیض الابرار شاہ حفظہ اللہ

سائل:
بلا شبہ ہم یہی سمجھتے ہیں کہ صحابہ کا ذکر نہیں ہے، مگر سوال اس طرح بنایا گیا، کہ آپ تعریف یہ کرتے ہو کہ جس نے ایمان کی حالت میں رسول اللہ کو دیکھا وہ صحابی ہیں۔
جو دور نبوی میں منافقین تھے بظاہر وہ بھی ایمان لائے تھے اور رسول اللہ کو دیکھا،
تو آپ کو پتہ کیسے لگتا ہے کہ فلاں مخلص صحابی ہیں اور فلاں نعوذ باللہ ان منافقین میں سے ہیں۔ میں نے ایک استاذ محترم کو جب یہ سوال بتایا تو وہ کہ رہے تھے جو منافق تھے وہ خلافت ابی بکر میں مرتد ہوکر ایکسپوز ہوگئے تھے۔ لہذا جو مرتد نہ ہوے ان کے بارے میں کنفرم ہوگیا کہ وہ مخلص صحابہ ہیں جن سے اللہ راضی ہے اور وہ اللہ سے راضی ہیں؟

جواب:
صحابی کی تعریف صرف اتنی نہیں کہ جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہو یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملا ہو، بلکہ پوری تعریف یہ ہے کہ ایمان کی حالت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملا ہو اور موت بھی حالت ایمان میں آئی ہو۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

صحابی وہ ہے جس نے حالت ایمان میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہو، اس کہ موت بھی حالت ایمان میں ہوئی ہو، بس بات ختم ہوگئی ہے، جس کی موت حالت ایمان میں نہیں ہوئی ہے، وہ بذات خود صحابہ کے زمرے سے نکل گیا ہے، یہ بات سمجھیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں منافقین تھے، لیکن ان میں ایک بھی صحابی نہیں تھا۔ یہ میرا ایمان ہے، کیونکہ قرآن مجید نے یہ بتایا ہے۔

فضیلۃ الشیخ فیض الابرار شاہ حفظہ اللہ