سوال (45)
ایک بندے نے وتر رات کے اول حصے میں پڑھ لیا ہے ، پھر وہ رات کے آخری حصے میں بیدار ہوتا ہے کیا وہ نفل نماز پڑھ سکتا ہے ۔ کیونکہ حدیث میں ہے کہ رات کی آخری نماز وتر ہونی چاہیے ۔ اور یہ بھی حدیث ہے ۔ لا وتران فی لیلۃ ؟
جواب
وتر نماز کے بعد نوافل پڑھنے کی اجازت ہے ، اس لیے پڑھ سکتا ہے۔ افضل یہی ہے کہ وتر نماز رات کے آخری حصے میں پڑھی جائے ۔ لیکن اگر کوئی وتر نماز پڑھ کے سو گیا ہے تو وہ رات میں نوافل پڑھ سکتا ہے جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے بھی وتر کے بعد نفل پڑھنے ثابت ہیں ۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
“اجْعَلُوا آخِرَ صَلَاتِكُمْ بِاللَّيْلِ وِتْرًا”.[صحيح البخاري: 998]
’’وتر رات کی تمام نمازوں کے بعد پڑھا کرو‘‘۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم استحباب اور افضلیت کے لیے ہے نہ کہ وجوب اور الزام کےلیے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وتر کے بعد دو رکعت بیٹھ کر پڑھتے تھے ۔
ابو سلمہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے کہا:
“فَقَالَتْ كَانَ يُصَلِّي ثَلاَثَ عَشْرَةَ رَكْعَةً يُصَلِّي ثَمَانَ رَكَعَاتٍ ثُمَّ يُوتِرُ ثُمَّ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ وَهُوَ جَالِسٌ”.[صحيح مسلم: 738]
’’آپ تیرہ رکعتیں پڑھتے تھے، آٹھ رکعتیں پڑھتے پھر ایک رکعت سے وتر ادا فرماتے، پھر بیٹھے ہوئے دو رکعتیں پڑھتے، پھر جب رکوع کرنا چاہتے تو اٹھ کھڑے ہوتے اور رکوع کرتے، پھر صبح کی نماز کی اذان او اقامت کے درمیا دو رکعتیں پڑھتے‘‘۔
وتر کو ہی رات کی آخری نماز بنانا ہے ، یہی افضل عمل ہےاس لئےاسی کو اپنا معمول بنانا چاہئے ،تاہم کوئی وتر پڑھنے کے بعد نوافل ہڑھنا چاہے تو پڑھ سکتا ہے۔
فضیلۃالشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ
فضیلۃ الباحث داؤد اسماعیل حفظہ اللہ