سوال (2160)
والدین کے کہنے پر بیوی کو طلاق دی جائے گی اگر وہ حکماً کہیں؟ نیز کیا کوئی اس طرح کی صحیح روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابا جی کہیں تو طلاق دے دیں چاہے آپ کوطلاق دینا ناپسند ہی کیوں نہ ہو۔
جواب
افہام و تفہیم کے ساتھ مسئلہ حل کیا جائے، اگر حل نہ ہو تو بالآخر والدین کی بات کو ترجیح دی جائے گی، والدین کے نمبرز زیادہ ہیں، سیدنا ابراہیم علیہ وسلم نے سیدنا اسماعیل علیہ السلام کو غائبانہ پیغام دیا تھا، اپنے گھر کی چوکھٹ تبدیل کریں، سیدنا اسماعیل علیہ السلام نے چوکھٹ بدل دی تھی، یعنی اپنی بیوی کو طلاق دی ہے۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ میرے والد عمر رضی اللہ عنہ نے کہا ہے کہ میں اپنی بیوی کو طلاق دے دوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنے والد کی بات مان کر طلاق دے دو۔
اب یہ ہے کہ جو والدین ان روایات کو ملحوظ رکھ کر مطالبہ کریں، ان والدین کو کہا جائے کہ پہلے آپ سیدنا ابراہیم علیہ وسلم کی سیرت اختیار کریں، آپ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا کردار ادا کریں پھر بچے سے مطالبہ کریں۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
کتاب و سنت کی نصوص و قرائن کا خلاصہ یہ ہے کہ والدین کی بات پر غور کریں، اگر واقعی ان کا کہنا کسی شرعی حیثیت کے مطابق ہے تو طلاق دے دیں، جیسے بیوی بدکردار نکل آئی، فاسقہ، فاجرہ ہے، ناشکری ہے، خائنہ ہے تو تب والدین کا کہا مانیں بلکہ اس سب بری عادات پر وہ خود بھی شاہد ہے تو اس سے علیحدگی اختیار کر لے۔
والدین اگر بغیر کسی شرعی حکم اور عذر کے طلاق دینے کا کہتے ہیں تو پیار محبت سے رشتوں کی اہمیت وفضیلت بیان کر دیں۔ کیونکہ والدین کی اطاعت صرف معروف میں ہے ظلم وزیادتی پر نہیں ہے۔ لیکن یہ یاد رہے والدین اگر زیادتی کر بھی جائیں جیسا کہ ہمارے معاشرے میں اس کی مختلف مثالیں موجود ہیں تو اولاد کو جواب میں زیادتی کرنے کا ہرگز حق نہیں ہے ۔
ان معاشرتی بگاڑ کا سب سے بڑا سبب دین اسلام اور دین اسلام کی مبارک تعلیمات سے دوری و ناواقفیت ہے، لہذا دین اسلام کو اہمیت دیں تاکہ آپ لوگ رب العالمین کے ہاں اہمیت حاصل کر سکیں۔
والله أعلم بالصواب
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ
سائل:
کیا یہ روایت سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ والی صحیح ہے؟
جواب:
جی یہ روایت ہمارے نزدیک صحیح ہی ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
سائل:
شیخ اگر کوئی بیوی یہ کہتی ہے کہ ساس اور سسر کی خدمت میرے ذمہ نہیں ہے، میرے ذمہ صرف اور صرف خاوند کی اطاعت و فرمانبرداری ہے، ایک ہی گھر میں رہ رہے ہیں اور والدین کافی لمبی عمر کو پہنچے ہوئے ہیں اس صورت میں بندہ کیا کرے، اور بیوی فرمائے کہ علیحدہ گھر بناؤ وہاں رہنا ہے، لیکن لڑکا والدین کو نہیں چھوڑنا چاہتا اور بیوی کے بھی خانے میں بات نہیں گھس رہی ہے یا پھر ایسی صورت ہے کہ لڑکا دور کہیں کام کاج کے سلسلے میں نکلا ہوا ہے بیوی کو ساتھ رکھنے پر بھی ابھی قادر نہیں ہے۔
جواب:
اس طرح کے مسائل کے لیے خاندان کو بیٹھا کر حل نکالنا چاہیے، ہمارے معاشرے میں لڑکی کو یہ سمجھایا جاتا ہے کہ یہ آپ کا گھر ہے، یہ آپ کے والدین کا گھر ہے، یہ ساس سسر کی خدمت فرضیت کے درجے میں نہیں ہے، لیکن یاد رکھیں کہ اخلاق و کردار اور تربیت بھی کوئی چیز ہوتی ہے، ویسے ہمارے ہاں یہ ہوتا ہے کہ پورے محلے کا کام کریں، لیکن ساس سسر کا کام نہیں کرتی ہیں، یہ بات سمجھانے کی ضرورت ہے، اگر خاوند بیوی کو حکماً ذمے داری دے تو تب اس پر ساس سسر کی خدمت واجب ہے۔ اگرچہ دین و اسلام میں یہ خدمت فرض نہیں ہے، لیکن پہلے یہ بتایا جائے کہ ہمارے ہاں دین کتنا ہے، اس لیے یہ سمجھانے کی ضرورت ہے ، لیکن والدین اصرار کریں کہ اس بیوی کو فارغ کریں تو پھر ٹھیک ہے۔ ایسی بیوی کی کیا ضرورت ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
بیوی کو یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے ہے کہ میں شوہر کے والدین کے ساتھ احسن طریقے سے پیش آ کر ہی شوہر کی محبت وخوشی حاصل کر سکتی ہوں اگر وہ واقعی شوہر کے مقام کو جانتی ہے اور اس سے محبت کرتی ہے تو وہ کبھی بھی شوہر کے لیے تکلیف کا باعث نہیں بنے گی کیونکہ اس کے والدین کے ساتھ برا سلوک ایک فرمانبردار بیٹا یعنی اس کا شوہر کبھی برداشت نہیں کرے گا۔
ایسی خاتون کو چاہیے کہ کسی دین والی کے پاس بیٹھ کر آداب زندگی بڑوں کا اکرام عزت کرنا سیکھے اور انہیں اپنے والدین جیسی عزت دے ان کے ساتھ اپنے والدین کی طرح پیش آئے، اگر وہ ایسا نہیں کرتی تو درحقیقت وہ اس رشتہ ازدواج کی اہمیت کو ہی ابھی تک نہیں سمجھ سکی ہے۔
اسے دل کی خوشی سے اپنے سسر اور ساس ماں کے ساتھ محبت وشفقت کے ساتھ پیش آنا چاہیے اور اس احسان پر جو اسے رب العالمین انعام اور عمدہ جزا دیں گے وہ سب سے بڑھ کر ہے.
اس خاتون کو نبی اکرم سیدنا محمد رسول صلی الله علیہ وسلم صلی الله علیہ وسلم کا یہ فرمان مبارک سنائیں
آپ نے فرمایا:
البركة مع أكابركم
برکت اور خیر تمہارے بڑوں کے ساتھ ہے۔
[صحیح ابن حبان:(559)، مكارم الأخلاق للخرائطي:(355) ﺑﺎﺏ ﺇﻛﺮاﻡ اﻟﺸﻴﻮﺥ ﻭﺗﻮﻗﻴﺮﻫﻢ،الفوائد الشهير بالغيلانيات:(935)،المعجم الأوسط للطبراني:(8991) ،،المخلصيات:(1575)2/ 293،و(1949)3/ 34،مستدرك حاكم:(210)،مسند الشهاب:(36،37)،شعب الإيمان للبيهقي:(10493) باب في رحم الصغير وتوقير الكبير،جامع بيان العلم وفضله:(1053) وغيره صحيح]
اس حدیث مبارک میں والدین، ساس، سسر اساتذہ کرام ثقہ علماء کرام ومشایخ عظام سب شامل ہیں جن کی خدمت وصحبت اختیار کرنے پر رب العالمین خیر و برکات سے نوازتے ہیں۔
اس عورت کو اس طرح فرمانبرداری اختیار کرنی چاہیے جیسے اصحاب غار والوں میں سے بکریاں چرانے والے صالح شخص کی بیوی نے اختیار کی تھی کہ وہ شوہر کے اپنی بیوی اور بچوں سے پہلے والدین کو ترجیح دینے پر کبھی ہنگامہ کھڑا نہیں کرتی تھی بلکہ شوہر کی اطاعت و فیصلے کو دل وجان سے قبول کرتی تھی اسے بتائیں اس مثالی فیملی کا ذکر خیر ہمارے پیارے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے بیان فرمایا ہے۔
کیا یہ نہیں چاہتی کہ یہ اپنے شوہر کی اطاعت میں رہتے ہوئے اس کے والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرے اور اپنے شوہر کے ساتھ مل کر بہت سا اجر کمائے اور یہ صابرہ،شاکرہ فرمانبردار بن کر رہنے سے ہی ممکن ہے۔
آخر میں یہ پیغام ہے کہ دنیا میں رسوا اور ذلیل نہیں ہونا چاہتے تو کبھی والدین سے پیٹھ نہ پھیرنا ان کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی نہ کرنا ان کی محبت وحسن سلوک پر اپنی فیملی کو ترجیح نہ دینا اور برابر اچھے طریقے سے اپنی بیوی کو سمجھاتے رہنا بیوی کو بیوی کی جگہ رکھو اسے اس کا حق دو اور والدین کو والدین کی جگہ پر رکھو اور انہیں ان کا حق دو کسی ایک کی طرف داری کر کے ظالم وسرکش کبھی نہ بننا اگر بیوی کسی طور نہیں سمجھتی تو اس کو الگ کرو والدین کو الگ کرو اور دونوں کے حقوق کا خیال رکھو اگر شوہر غریب ہے تو بیوی کو اپنے شوہر کا ساتھ دینا چاہیے بصورت دیگر والدین کی ناراضگی لینے سے بہتر ہے کہ اس عورت سے علیحدگی اختیار کر لے رب العالمین ضرور خیر والا معاملہ فرمائیں گے۔
هذا ما عندي والله أعلم بالصواب
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ