سوال (1982)
کیا والد اپنی بیٹی کا زبردستی نکاح کروا سکتا ہے، جبکہ لڑکی سے زبردستی نکاح نامے پے دستخط کروائے گئے ہوں، لڑکی راضی نہ ہو؟
جواب
دین اسلام نے زوجین کو ایک دوسرے کے لیے باعث سکون قرار دیا ہے۔
فرمان الہی ہے:
“هُوَ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَجَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا لِيَسْكُنَ إِلَيْهَا” [الأعراف :189]
لیکن اگر زوجین میں باہمی الفت ومحبت ختم ہو جائے اور نفرتوں اور کدورتوں کی فصل پکنے لگے تو اللہ تعالیٰ نے مرد کو طلاق کا اختیار دیا ہے اور بیوی کو خلع کا حق دیا ہے کہ ان دونوں میں سے کوئی بھی شرعی طریقہ کار کو اختیار کرتے ہوئے اپنی زندگی کو اجیرن بننے سے بچانے کے لیے اس بے مزہ نکاح کے بندھن سے آزاد ہو جائے اور کوئی دوسرا مناسب رفیق زندگی تلاش کرے۔ تاکہ نکاح کے مقاصد میں اسے ایک اہم مقصد ” لِيَسْكُنَ إِلَيْهَا” پورا ہو جائے۔
اور جب نکاح سے قبل ہی فریقین دونوں یا ان میں سے کوئی ایک دوسرے کو نہ چاہتا ہو یا دوسرے کی نفرت دل میں گھر کر چکی ہو تو شریعت اسلامیہ اس نکاح کا منعقد ہونا ہی حرام ٹھہراتی ہے۔ اسی بناء پر اسلام نے نکاح کی صحت کے لیے فریقین یعنی مرد و عورت کی رضامندی کو شرط لازم قرار دیا ہے۔ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم اس سلسلہ میں فرماتے ہیں:
“لَا تُنْكَحُ الْبِكْرُ حَتَّى تُسْتَأْذَنَ وَلَا الثَّيِّبُ حَتَّى تُسْتَأْمَرَ”[صحیح البخاری: 6968]
«کنواری لڑکی سے اجازت لیے بغیر اور شوہر دیدہ عورت سے مشورہ کیے بغیر انکا نکاح نہ کیا جائے»
لہذا والدین پر لازم ہے کہ وہ لڑکی کی خواہشات کو بھی ملحوظ رکھیں اور اس کے لیے معیاری رشتہ تلاش کریں، جس پر وہ بھی راضی ہو جائے۔ اگر ایک رشتہ بچی کو پسند نہیں ہے تو دوسرا، تیسرا، چوتھا، پانچواں اس سے بھی آگے تک رشتہ تلاش کیا جائے تاکہ وہ راضی ہو جائے۔ والدین کو ایسی جگہ شادی کرنے کے کی قطعا اجازت نہیں ہے، جہاں بچی شادی کرنا پسند نہیں کرتی ہے، حتى کہ اگر والدین کسی بچی کا نکاح جبراً کر دیں، جہاں وہ راضی نہیں ہے تو شریعت اسلامیہ نے نوجوان لڑکی کو ایسا نکاح فسخ کرانے کا اختیار دیا ہے، وہ عدالت یا پنچایت کے ذریعہ ایسا نکاح فسخ کرا سکتی ہے۔ نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارکہ میں بھی ایک ایسا ہی کیس سامنے آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نکاح کو مسترد فرما دیا
سیدنا عبد الرحمن بن یزید بن جاریہ اور مجمع بن یزید بن جاریہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
“فَإِنَّ خَنْسَاءَ بِنْتَ خِذَامٍ أَنْكَحَهَا أَبُوهَا وَهِيَ كَارِهَةٌ فَرَدَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَلِكَ”
یعنی خنساء بنت خذام انصاریہ رضی عنہا کا نکاح انکے والد نے کر دیا تھا، جبکہ وہ اسے ناپسند کرتی تھی تو
رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے اس نکاح کو رد فرما دیا تھا۔
[صحیح البخاری: 6969]
اور پھر جس طرح سے لڑکی کی رضامندی نکاح کے صحیح ہونے کے لیے ضروری ہے بالکل اسی طرح والدین کی اجازت و رضا بھی صحت نکاح کے لیے شرط ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں
لَا نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِيٍّ
[ جامع الترمذی أبواب النکاح باب ما جاء لانکاح إلا بولی: 1101]
ولی کے بغیر نکاح نہیں ہے۔
نوٹ: جبر در اصل یہ ہے کہ اولیاء اپنے مفادات کی خاطر نوجوان بچی کے مفادات اور اسکے مستقبل کو نظر انداز کرنے پر اصرار کریں، یا پیسے کے لالچ میں بے جوڑ شادی کرنا چاہیں، یا اور اس قسم کی کوئی صورت ہو جو بچی کے لیے ناپسندیدہ ہو۔ ان صورتوں میں والدین یا اولیاء کو جبر کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
فضیلۃ الباحث کامران الہیٰ ظہیر حفظہ اللہ
جی نہیں ہوتا ہے، نکاح باہمی رضامندی ہی سے ممکن ہے، زبردستی کیا جانے والا ظلم تو ہوسکتا ہے اسے نکاح کہنا ہی درست نہیں ہے۔ واللہ اعلم
فضیلۃ الباحث نعمان خلیق حفظہ اللہ