سوال (2102)
یزید بن معاویہ کہیں کسی حدیث کے راوی ہیں۔ ایسی کوئی سند ملتی ہو تو رہنمائی کریں؟
جواب
حدیث “من أراد الله به خيراً يفقهه فى الدين” کو یزید نے اپنے والد سے روایت کیا ہے۔
فضیلۃ العالم حافظ قمر حسن حفظہ اللہ
سائل :
میں نے “کتب تسعة” میں اس حدیث کی ساری اسناد چیک کرلی ہیں، کسی میں بھی یزید بن معاویہ کا ذکر نہیں ہے، بعض اسناد میں یزید ہے۔ لیکن وہ یزید بن الاصم راوی ہے۔
جواب:تاریخ ابن عساکر [جلد : 59] میں ہے۔
فضیلۃ العالم حافظ قمر حسن حفظہ اللہ
تاریخ دمشق میں اس طریق و سند سے یہ روایت ہے۔
ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﺃﺑﻮ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ اﻷﻛﻔﺎﻧﻲ ﻧﺎ ﺃﺑﻮ ﻣﺤﻤﺪ اﻟﻜﺘﺎﻧﻲ ﺃﻧﺎ ﺗﻤﺎﻡ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺣﺪﺛﻨﻲ ﺃﺑﻲ ﺣﺪﺛﻨﻲ ﺃﺑﻮ ﺑﻜﺮ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﻗﺤﺎﻓﺔ اﻟﺮﻣﻠﻲ ﻧﺎ ﺳﻌﻴﺪ ﺑﻦ ﻧﻔﻴﺲ ﻗﺎﻝ ﻭﺃﻧﺎ ﺗﻤﺎﻡ ﺣﺪﺛﻨﻲ ﺃﺑﻮ ﻣﺤﻤﺪ اﻟﺤﺴﻦ ﺑﻦ ﻋﻠﻲ ﺑﻦ ﻋﻤﺮ اﻟﺤﻠﺒﻲ ﺛﻨﺎ ﺳﻌﻴﺪ ﺑﻦ ﻧﻔﻴﺲ اﻟﻤﺼﺮﻱ ﺑﺤﻠﺐ ﻧﺎ ﻋﺒﺪ اﻟﺮﺣﻤﻦ ﺑﻦ ﺧﺎﻟﺪ اﻟﻌﻤﺮﻱ ﺣﺪﺛﻨﻲ ﺃﺑﻲ ﺣﺪﺛﻨﻲ اﻟﻬﻘﻞ ﺑﻦ ﺯﻳﺎﺩ ﻋﻦ ﺣﺮﻳﺰ ﺑﻦ ﻋﺜﻤﺎﻥ ﺳﻤﻌﻪ ﻣﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻤﻠﻚ ﺑﻦ ﻣﺮﻭاﻥ ﻳﺨﺒﺮﻩ ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﺧﺎﻟﺪ ﻋﻦ ﺃﺑﻴﻪ ﻗﺎﻝ ﻗﺎﻝ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ (ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ) ﻣﻦ ﻳﺮﺩ اﻟﻠﻪ ﺑﻪ ﺧﻴﺮا ﻳﻔﻘﻬﻪ ﻓﻲ اﻟﺪﻳﻦ ﺃﺑﻮ ﺧﺎﻟﺪ ﻫﻮ ﻳﺰﻳﺪ ﺑﻦ ﻣﻌﺎﻭﻳﺔ
[تاریخ دمشق : 65/ 394 ، 395]
یہ روایت جس میں أبو خالد یزید بن معاویہ کو کہا گیا ہے، سخت ضعیف ہے، عبدالرحمن بن خالد بن نجیح منکر الحدیث، متروک الحدیث راوی ہے
[میزان الاعتدال: 4856 ،المغني في الضعفاء : 3558 ،لسان المیزان :4625]
اوراس کا باپ خالد بن نجیح المصری کذاب، یضع الحدیث راوی ہیں ۔
امام ابو حاتم الرازی نے کہا:
ﻫﻮ ﻛﺬاﺏ ﻛﺎﻥ ﻳﻔﺘﻌﻞ اﻷﺣﺎﺩﻳﺚ ﻭﻳﻀﻌﻬﺎ ﻓﻲ ﻛﺘﺐ اﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﻣﺮﻳﻢ ﻭﺃﺑﻲ ﺻﺎﻟﺢ ﻭﻫﺬﻩ اﻷﺣﺎﺩﻳﺚ اﻟﺘﻲ ﺃﻧﻜﺮﺕ ﻋﻠﻰ ﺃﺑﻲ ﺻﺎﻟﺢ ﻳﺘﻮﻫﻢ ﺃﻧﻪ ﻣﻦ ﻓﻌﻠﻪ
[الجرح والتعدیل : 1605]
امام ابو زرعة الرازی نے کہا:
ﻭﻗﻊ ﺑﻤﺼﺮ ﺭﺟﻼﻥ ﻛﺎﻧﺎ ﻳﻀﻌﺎﻥ اﻟﺤﺪﻳﺚ، ﺧﺎﻟﺪ ﺑﻦ ﻧﺠﻴﺢ ﻭﺣﺒﻴﺐ ﺑﻦ ﺭﺯﻳﻖ
[الضعفاء لأبي زرعة الرازي : 2/ 447]
ابن یونس نے کہا:
ﻣﻨﻜﺮ اﻟﺤﺪﻳﺚ
[تاریخ ابن یونس:1/ 150]
اور سعید بن نفيس المصری غیر موثق ہیں،اس کا ترجمہ تاریخ بغداد، الموتلف والمختلف للدارقطنی میں ہے، مگر توثیق کسی نے نہیں کی ہے، لیکن دوسری جگہ سعید بن نفیس کی متابعت کی گئی ہے، مگر وہ غیر مفید ہے۔
اس سند میں بھی اﻟﺤﺴﻦ ﺑﻦ ﻋﻠﻲ ﺑﻦ ﻋﻤﺮ ﺑﻦ ﻋﻴﺴﻰ ﺃﺑﻮ ﻣﺤﻤﺪ اﻟﺤﻠﺒﻲ راوی غیر موثق ہیں، اور اسی راوی کے ترجمہ تاریخ دمشق: 1389 میں وہ طریق موجود ہے اور مرکزی راوی عبدالرحمن بن خالد بن نجیح جو شیخ ہیں، سعید بن نفیس کا اور خالد بن نجیح یہ دونوں سخت ضعیف ہیں۔
باقی سیدنا معاویہ رضی الله عنہ سے یہ حدیث “ﻣﻦ ﻳﺮﺩ اﻟﻠﻪ ﺑﻪ ﺧﻴﺮا ﻳﻔﻘﻬﻪ ﻓﻲ اﻟﺪﻳﻦ” کئی ایک طرق و اسانید سے موجود ہے، دیکھیے صحیح البخاری، صحیح مسلم، مسند أحمد بن حنبل، المعجم الکبیر، المعجم الأوسط، موطا امام مالک، مصنف ابن أبی شیبہ ، مسند عبد بن حمید، مسند أبی داود الطیالسی وغیرہ میں موجود ہے۔ اور کثرت طرق و اسانید سے مسند أحمد بن حنبل ، المعجم الکبیر میں ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ یزید بن معاویہ روایت حدیث میں معتبر نہیں ہیں، نہ ہی ائمہ محدثین نے اس سے احتجاج کیا ہے۔
والله أعلم بالصواب
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ