سوال (2532)

“بسم الله و علی برکة الله” کیا یہ دعا پڑھنا درست ہے؟

جواب

بسم الله وعلی برکة اللہ کی تحقیق، جیسا کہ تفسیر ثعالبی کی درج ذیل روایت میں ہے؟

وعن أبي هريرة في حديثه في مسير النبي صلى الله عليه وسلم – وأبي بكر وعمر -إلى بيت أبي الهيثم وأكلهم الرطب واللحم وشربهم الماء، وقوله صلى الله عليه وسلم:(هذا هو النعيم الذي تُسئلون عنه يوم القيامة) وأن ذلك كبُر على أصحابه وأنه قال: (إذا اصبتم مثل هذا وضربتم بأيدكم فقولوا: بسم الله وعلى بركة الله، وإذا شبعتم فقولوا: الحمد لله الذي أشبعنا وأروانا وأنعم علينا وأفضل، فإن هذا كفاف بذاك ) هذا مختصر، رواه الحاكم في”المستدرك”۔

اس روایت کے بارے میں دو باتیں جان لینی چاہئیں :
(1) : حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات شیخین رضی اللہ عنہما کی ضیافت کا یہ واقعہ کتب حدیث میں دو حضرات صحابہ کی طرف منسوب ہے:
پہلے صحابی:حضرت ابو الہیثم مالک بن تیہان رضی اللہ عنہ ہیں،ان کی ضیافت کا واقعہ متعدد صحابہ کرام سے مروی ہے:
حضرت ابوہریرہ سے: مسلم(۲۰۳۸) ترمذی(۲۳۶۹) ابن ماجہ(۳۱۸۱) موطا روایۃ ابی مصعب (۱۹۵۷) معجم طبرانی کبیر(۵۷۰) مستدرک حاکم (۷۱۷۸)
حضرت ابن عباس سے:معجم طبرانی کبیر(۵۶۸) مسند بزار (۲۰۵) مستدرک حاکم (۵۲۵۲،۷۵۷۶)
حضرت ابن عمر: معجم طبرانی کبیر(۵۶۹) مستدرک حاکم (۷۱۷۸)
حضرت جابر سے: ابوداود(۳۸۵۳)
حضرت ابن مسعود سے:معجم طبرانی کبیر(۱۰۴۹۶)
حضرت ابو عسیب مولی رسول اللہ: مسند احمد(۲۰۷۶۸) مشکل الآثار(۴۶۸) شعب الایمان(۴۲۸۱)
دوسرے صحابی حضرت ابو ایوب انصاری ہیں ، ان کا واقعہ ان کتابوں میں ہے: معجم طبرانی صغیر(۱۸۵) معجم اوسط(۲۲۴۷) صحیح ابن حبان (۵۲۱۶) مستدرک حاکم (۷۰۸۴) شعب الایمان(۴۲۸۴) ۔
ان تمام کتابوں میں حضرت ابو ایوب کا مذکورہ واقعہ بروایت حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ ذکرکیا گیا ہے،اور دعا کے الفاظ دو طرح سے منقول ہیں:

(إذا أصبتم مثل هذا وضربتم بأيديكم فقولوا: بسم الله وبركۃ الله)

معجم طبرانی صغیر(۱۸۵) معجم اوسط(۲۲۴۷) شعب الایمان(۴۲۸۴)صحیح ابن حبان (۵۲۱۶)

(إذا أصبتم مثل هذا وضربتم بأيديكم فكلوا بسم الله وبركۃ الله)

مستدرک حاکم (۷۰۸۴)
ان تمام کتابوں میں روایت میں لفظ【علی】 نہیں ہے ۔ اور صاحب قصہ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ ہیں۔
جبکہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی جو روایت مستدرک حاکم (۷۱۷۸) وغیرہ میں ہے اس میں دعا کےمذکورہ الفاظ بھی نہیں ہیں، اور واقعہ بھی ایک دوسرے صحابی کا ہے جن کا نام ہے [ابو الہیثم بن التیہان] ۔
(2) : زیر بحث روایت میں (وبركة الله )کے بجائے【علی برکۃ اللہ】 کے الفاظ کے ساتھ شاید سب سے پہلے ابن الامام نے اپنی کتاب” سلاح المومن “(ص۳۹۴) میں ذکر کئےہیں، اور اس کی نسبت انہوں نےحضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت کی طرف کی ہے اور حوالہ مستدرک حاکم کا دیا ہے ۔
میرا خیال ہے کہ:ابن الامام سے سہو نظر اور سہو قلم دونوں ہوا۔
سہو نظر اس طور پر کہ انہوں نے حدیث نقل کرنے کے بعد اس کوحضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت کی طرف منسوب کردی، جبکہ در حقیقت یہ روایت حضرت ابن عباس کی ہے، دونوں روایتوں کے قریب قریب ہونے کی وجہ سے شاید سہو ہوا۔
اورسہو قلم 【علی】کے اضافہ کی وجہ سے ہواجو روایت میں وارد نہیں ہے ۔
پھر اس کے بعد ابن الامام پر اعتماد کرتے ہوئے ابن الجزری نے (حصن حصین)میں (وعلی برکۃ اللہ)کے الفاظ سےیہ دعا ذکر کی، اور وہاں سے دعاؤں کی کتابوں میں اور زبانوں پر پھیل گئی۔
خلاصہ:
مستدرک حاکم میں دعا کے یہ الفاظ حضرت ابن عباس کی روایت سے وارد ہے، نہ کہ حضرت ابو ہریرہ۔
نیز حضرت ابن عباس کی روایت میں صاحب قصہ حضرت ابو ایوب انصاری ہیں، اور دعا کے الفاظ: [بسم الله وبركة الله] ہیں ۔

فضیلۃ الباحث کامران الہیٰ ظہیر حفظہ اللہ

بارك الله فيكم وعافاكم
بسم الله وعلى بركة الله یا بسم الله وبركة الله دونوں طرح سے یہ الفاظ باسند صحیح یا باسند حسن ثابت نہیں ہیں، عبد الله بن كيسان راوی کی عکرمہ سے روایت غیر محفوظ ہوتی ہے اور یہ خود اپنے اوپر جرح رکھتا ہے، محفوظ حدیث وقصہ وہی ہے جو سیدنا ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے صحیح مسلم(2038) وغیرہ میں ذکر ہوا اور اس میں یہ الفاظ سرے سے موجود نہیں ہیں اور جو تخریج آپ نے پیش کی ہے ان میں سے کونسی سند اور طریق معتبر و محفوظ ہے۔۔۔۔۔؟؟ اس کی وضاحت کریں !
هذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ