سوال (5620)
اردو ميں جسے ہم “بيوی” بولتے ہیں قرآن مجيد ميں اس کے لئے تین لفظ استعمال ہوئے ہیں:
1- إمراءة 2- زوجة 3- صاحبة
إمراءة: امراءة سے مراد ايسی بيوی جس سے جسمانی تعلق تو ہو مگر ذہنی تعلق نہ ہو۔
زوجة: ايسی بيوی جس سے ذہنی اور جسمانی دونوں تعلقات ہوں يعنی ذهنی اور جسمانی دونوں طرح ہم آہنگی ہو۔
صاحبة: ايسی بيوی جس سے نه جسمانی تعلق ہو نہ ذہنی تعلق ہو۔
اب ذرا قرآن مجيد كی آيات پر غور كيجئے:
1- امراءة حضرت نوح اور حضرت لوط عليهما السلام كی بيوياں مسلمان نہیں ہوئی تھيں تو قرآن مجيد ميں ان كو ” امراءة نوح ” اور ” امراءة لوط ” كہہ كر پكارا ہے،
اسی طرح فرعون كی بيوی مسلمان هو گئی تھی تو قرآن نے اسكو بھی
” وامراءة فرعون” کہ كر پكارا ہے۔
(ملاحظه كريں سورة التحريم كے آخری آيات ميں)
یہاں پر جسمانی تعلق تو تھا اس لئے کہ بيوياں تهيں ليكن ذهنی ہم آہنگی نہیں تھی اس لئے کہ مذہب مختلف تھا۔
2- زوجة: جہاں جسمانی اور ذہنی پوری طرح ہم آہنگی ہو وہاں بولا گيا جيسے
( ﻭﻗﻠﻨﺎ ﻳﺎ آﺩﻡ ﺍﺳﻜﻦ ﺃﻧﺖ ﻭ ﺯﻭﺟﻚ ﺍﻟﺠﻨﺔ )
اور نبی صلی اللّٰہ عليه و سلم كے بارے فرمايا: ( يأيها النبي قل لأزواجك …. )
شايد اللّٰہ تعالٰی بتانا چاہتا ہے کہ ان نبيوں كا اپنی بيويوں كے ساتھ بہت اچھا تعلق تھا۔
ایک عجيب بات هے زكريا علیہ السلام كے بارے کہ جب أولاد نہیں تھی تو بولا
( و امراتي عاقرا …. )
اور جب أولاد مل گئی تو بولا
( ووهبنا له يحی و أصلحنا له زوجه …. )
اس نكته كو اهل عقل سمجھ سكتے ہيں۔
اسی طرح ابولهب كو رسوا كيا يہ بول کر۔
( وامرءته حمالة الحطب )
كہ اس کا بيوی كے ساتھ بھی كوئی اچھا تعلق نہیں تھا۔
3- صاحبة: جہاں پر كوئی کسی قسم کا جسمانی يا ذہنی تعلق نہ ہو
اللّٰہ تعالٰی نے اپنی ذات كو جب بيوی سے پاک کہا تو لفظ “صاحبة” بولا اس لئے كه یہاں كوئی جسمانی يا ذہنی كوئی تعلق نہیں ہے۔
(ﺃﻧﻰ ﻳﻜﻮﻥ ﻟﻪ ﻭﻟﺪ ﻭﻟﻢ ﺗﻜﻦ ﻟﻪ ﺻﺎﺣﺒﺔ)
اسی طرح ميدان حشر ميں بيوی سے كوئی جسمانی يا ذہنی كسی طرح كا كوئی تعلق نہیں ہو گا تو فرمايا:
( ﻳﻮﻡ ﻳﻔﺮ ﺍﻟﻤﺮﺀ ﻣﻦ ﺃﺧﻴﻪ ﻭﺃﻣﻪ وﺃﺑﻴﻪ ﻭﺻﺎﺣﺒﺘﻪ ﻭﺑﻨﻴﻪ )
كيونکہ وہاں صرف اپنی فكر لگی ہو گی اس لئے “صاحبته” بولا
اردو ميں: امراءتي, زوجتي, صاحبتي سب كا ترجمة ” بيوی” ہی كرنا پڑے گا۔
ليكن ميرے رب كے كلام پر قربان جائيں جس كے ہر لفظ كے استعمال ميں كوئی نہ كوئی حكمت پنہاں ہے
اور رب تعالى نے جب دعا سکھائی تو ان الفاظ ميں فرمايا:
رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا
“وأزواجنا”
زوجہ سے استعمال فرمايا اس لئے كه آنكھوں کی ٹھنڈک تبھی ہو سکتی ہے جب جسمانی كے ساتھ ذہنی بھی ہم آہنگی ہو۔
تحریر پڑھنے کے بعد شیئر ضرور کیجے۔ کیا یہ تحریر درست ہے؟
جواب
“قرآن میں امراۃ اور زوجہ کا فرق اور اشکال کا ازالہ”
بسم الله و الحمد لله و الصلاة و السلام علی رسول الله…
ایک تحریر سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے، جس میں بیوی کے لیے قرآنِ مجید میں استعمال ہونے والے الفاظ امرأة اور زوجة کا فرق کیا گیا ہے،
اس تحریر کے شروع میں اس کا خلاصہ یہ دیا گیا ہے کہ
جب میاں بیوی میں صرف جسمانی تعلق ہو اور ذہنی ہم آہنگی نہ ہو تو لفظ امرأة کا استعمال ہوتا ہے۔
اور جب جسمانی تعلق و ذہنی ہم آہنگی دونوں ہوں تو لفظ زوجہ استعمال ہوتا ہے.
یہ تحریر محل نظر ہے، ہمارے علم کے مطابق محقق اہلِ تفسیر میں سے کسی نے یہ عجیب و غریب بات نہیں کی.
1. پہلے قاعدے کے مطابق امرأة تب آتا ہے جب جسمانی تعلق تو ہو ذہنی ہم آہنگی نہ ہو. حالانکہ یہ درست نہیں، کیوں کہ
١. سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی بیوی کو قرآن مجید میں امراة کے لفظ سے ذکر کیا گیا ہے.
أم إسحاق کے متعلق فرمایا:
فأقبلت امرأته في صرة فصكت وجهها… الذاريات.
و امرأته قائمة فضحكت… هود.
٢. اسی طرح مریم علیہا السلام کی والدہ کے متعلق فرمایا:
إذ قالت امرأت عمران رب إني نذرت… آل عمران.
٣. ابو لہب اور اس کی بیوی کی جسمانی و ذہنی ہم آہنگی تھی پھر بھی فرمایا:
وامرأته حمالة الحطب… اللهب.
2. دوسرے قاعدے کے مطابق ذہنی ہم آہنگی و جسمانی تعلق دونوں ہوں تو قرآن میں لفظ زوجہ آتا ہے. یہ بھی درست نہیں کیوں کہ:
١. اس میں پہلی بات تو یہ ہے کہ قرآن مجید میں بیوی کے لیے کہیں بھی مؤنث لفظ زوجة استعمال نہیں ہوا بلکہ میاں بیوی دونوں کے لیے لفظ زوج استعمال ہوا ہے.
٢. دوسرا قرآن میں ایک سے زائد مقامات پر بیوی کے لیے لفظ زوج استعمال ہوا ہے جبکہ دونوں میں ذہنی ہم آہنگی نہیں پائی جاتی.
(ا). مرتد ہو کر مسلمانوں کی طرف سے کفار کی طرف چلے جانے والی بیویوں کے متعلق اللہ فرماتے ہیں:
و إن فاتكم شيء من أزواجكم إلى الكفار فعاقبتم فآتوا الذين ذهبت أزواجهم مثل ما أنفقوا… الممتحنة.
دیکھیں یہاں تو دین و عقیدہ بھی مختلف ہو گیا ہے پھر بھی ازواج (جمع زوج) استعمال ہوا.
(ب) اسی طرح جب ذہن ہم آہنگی نہ ہونے کی صورت میں پہلی بیوی کو طلاق دینے کا ذکر ہے تو وہاں بھی زوج کا لفظ آیا ہے.
و إن أردتم استبدال زوج مكان زوج… النساء
(ج) زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ نے سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کو طلاق دینا چاہی تو بھی لفظ زوج آیا ہے.
و إذ تقول للذي أنعم الله عليه و أنعمت عليه أمسك عليك زوجك… الأحزاب.
(د) زوج کا لفظ کفار اور ان کی نافرمان بیویوں کے لیے بھی آیا ہے،
أحشروا الذين ظلموا و أزواجهم… الصافات.
خلاصہ یہ کہ یہ تحریر درست نہیں اور نہ ایسا کوئی فرق قرآن مجید میں ہے.و اللہ اعلم.
فضیلۃ الباحث حافظ محمد طاہر حفظہ اللہ