کبار شیوخ کی خدمات نسل نو میں عام کرنےکا ایک آسان طریقہ

چند سال قبل میں دور دراز علاقہ کے ایک محدث کے آثار کی تلاش میں نکلا، کافی مشکلات کے بعد آخر ان کی مسجد مل گئی جس میں انھوں نے ساری زندگی کام کیا، بلکہ وہ مسجد ہی ان کے دور میں عالی شان مدرسہ تھا، میں نے مسجد کے اندر اور باہر کافی غور سے دیکھا کہ کیا وہ محدث یہاں ہی کام کرتے رہے ہیں، یقین نہیں آرہا تھا، کیونکہ اس مسجد میں انتظامیہ کے نام لکھے ہوئے تھے، حاضر سروس خطیب و امام کا نام لکھا ہوا تھا، لیکن اس محدث کا نام کہیں نظر نہیں آیا نہ کسی اشتہار پر نہ ہی مسجد کی کسی جگہ، آخر میں نے انتظامیہ کے ایک نوجوان سے پوچھ ہی لیا کہ کیا یہ واقعی وہی مسجد ہے جس میں فلاں محدث ساری زندگی کام کرتے رہے ہیں، تو اس نے کہا کہ جی جی یہ وہی مسجد ہے، پھر میں نے عرض کیا کہ اس مسجد کے کسی کونے میں یا مسجد کے کسی اشتہار میں ان کا نام ہی لکھ دیا کریں تاکہ نسل نو میں تعارف رہے۔

اسی طرح ایک شادی پر دور کے سفر میں حاضر ہوا نماز کے وقت قریبی مسجد میں گئے مسجد میں داخل ہوتے ہی مسجد کے بانی کا نام لکھا ہوا تھا، وہ نام دیکھ کر فورا ان کی خدمات جلیلہ یاد آگئیں بلکہ ان کی ترکیبوں پر ایک پرانی کتاب بھی مطالعہ میں رہی تھی۔

جامعہ محمدیہ گوجرانوالہ میں بڑا واضح ایک بورڈ لگا ہوا ہے جس میں کبار شیوخ الحدیث کے نام لکھے ہوئے ہیں، وہ دیکھتے ہیں جامعہ کے شیوخ الحدیث کے لیے دعائیں زبان پر جاری ہو جاتی ہیں۔ اور جامعہ کی تاریخ بھی سمجھ لگ جاتی ہے۔

بعض مساجد بڑی تاریخی ہیں ان کے بانیان یا خطبا، میں سے محدثین گزرے ہیں تو ان مساجد میں ان کا ذکر خیر کسی نہ کسی جگہ ضرور لکھ دینا چاہیے۔

بطور مثال میرے گاوں کی مرکزی مسجد کے بانی عالم ربانی مفتی علاوالدین رحمہ اللہ جو کہ مولانا عبدالغنی مجددی دہلوی کے شاگرد تھے، ہھر ان کے بیٹوں میں سے میاں نذیر حسین محدث دیلوی رحمہ اللہ کے شاگرد فضل حق اور ان کے بھائی مولانا عبدالغنی وغیرہ نے کام کیا، پھر مولانا عبدالغنی کے بیٹے شیخ الحدیث عبدالرحیم حسینوی اور ان کے بھائی شیخ عبداللہ نے ساری زندگی کام کیا، ہھر ان کے شاگرد مولانا اسماعیل حلیم بازید پوری حسینوی نے کا کام کیا پھر، مولانا بشیر الرحمن صاحب کام کرتے رہے، ۔۔۔الی آخرہ۔۔۔ افسوس کہ نسل نو کو کسی چیز کا علم نہیں ہے، کاش کہ مسجد کے کسے کونے میں ان شیوخ کے نام لکھے جائیں تاکہ نسل نو اپنے اسلاف کی تاریخ کو یاد رکھے۔
ہمیں اپنے شیوخ کرام کے نام کو زندہ رکھنے کے لیے ان کے نام کی مساجد، مداراس، مکتبے یا ہال وغیرہ کو موسوم کردینا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں: انا کی جنگ میں اکثر جدائی جیت جاتی ہے