اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے ۔یہ فرد کی زندگی اور معاشرے کے باریک ترین نکات پر مفصل اور مدلل لائحہ عمل فراہم کرتا ہے. جیسا کہ فرمایا گیا:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لِمَ تَقُوۡلُوۡنَ مَا لَا تَفۡعَلُوۡنَ

مومنو! تم ایسی باتیں کیوں کہا کرتے ہو جو کیا نہیں کرتے

کَبُرَ مَقۡتًا عِنۡدَ اللّٰہِ اَنۡ تَقُوۡلُوۡا مَا لَا تَفۡعَلُوۡنَ

اللہ اس بات سے سخت بیزار ہے کہ ایسی بات کہو جو کرو نہیں
( سورہ صف – آیت نمبر 2,3)
سورت صف کی آیت نمبر 1 میں اللہ کی پاکی بیان کرتے ہوئے مومنین سے خطاب کیا گیا ہے ۔
اے ایمان والو ! وہ بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں۔ اللہ کے نزدیک یہ بڑی سخت ناپسندیدہ بات ہے کہ تم وہ کہو جو نہ کرو۔
اس آیت کے شانِ نزول میں سے ایک یہ ہے کہ یہ آیت ان منافقین کے بارے میں نازل ہوئی جو مسلمانوں سے مدد کرنے کا جھوٹا وعدہ کرتے تھے۔( خازن، الصف، تحت الآیۃ: ۲، ۴ / ۲۶۲)
اس اعتبار سے منافقوں کی مذمت ہے اور انہیں اہلِ ایمان کہہ کر مُخاطَب کرنا. ان کے ظاہری ایمان کی وجہ سے ہے ۔
اور اگر یہ آیت صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے بارے میں نازل ہوئی ہے تو ا س میں ان کی مذمت نہیں بلکہ تربیت فرمائی گئی ہے کہ ایسے دعوے کرنا درست نہیں کیونکہ آنے والے وقت کا معلوم نہیں کہ کیسا آئے ،ممکن ہے کہ اس وقت کسی وجہ سے وہ یہ دعویٰ پورا نہ کر سکیں ۔
اس آیت سے معلوم ہو اکہ قول اور فعل میں تضاد نہیں ہونا چاہئے بلکہ اپنے قول کے مطابق عمل بھی کرنا چاہئے ۔ یاد رہے کہ اس تضاد کی بہت سی صورتیں ہیں جیسے لوگوں کو اچھی باتیں بتانا لیکن خود ان پر عمل نہ کرنا ،یا کسی سے وعدہ کرنااور اس وقت یہ خیال کرنا کہ میں یہ کام کروں گا ہی نہیں ،صرف زبانی وعدہ کر لیتا ہوں ،وغیرہ یعنی ایک بات کہہ دیتا ہوں لیکن پوری نہیں کروں گا۔ اَحادیث میں ان چیزوں کی خاص طور پر شدید مذمت اور وعید بیان کی گئی ہے، اور وعدہ خلافی کرنے والوں کے بارے میں حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، جو کسی مسلمان سے عہد شکنی کرے، اس پر اللّٰہ تعالیٰ ، فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے اور اس کا کوئی فرض قبول ہوگا نہ نفل۔ ( بخاری:۷۳۰۰)

آیت کا یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ جو کام تم کرتے نہیں ہو اس کے دعوے نہیں کرو جیسے ایک آدمی غریبوں کی مدد نہیں کرتا لیکن دعویٰ یہ کرتا ہے کہ وہ غریبوں کی بہت مدد کرتا ہے تو یہ محض جھوٹا دعویٰ ہے اور کچھ بھی نہیں۔
یا ایک آدمی ایک کام کرنے کا دعویٰ کرے لیکن اسے پورا نہ کرے جیسے کہے کہ فلاں جگہ کے غریبوں کی اتنی مدد کروں گا لیکن کہتے ہوئے دل میں موجود ہو کہ عمل نہیں کروں گا تو گویا جو کہتے ہیں وہ کرتے نہیں۔
کہی گئی بات کو پورا نہ کرنے پر معاشرے میں اشتعال پھیلتا ہے جسے آسرا دے کے پیچھے ہٹ جایا جائے وہ فرد فرسٹریشن کا شکار ہوجاتا ہے۔ یاد رکھیں انسان سے کیا جانا والا معاملہ درحقیقت پہلے اللہ سے کیاجاتا ہے ۔اور اللہ اپنی مخلوق کی دل آزاری سے ناراض ہوتا ہے ۔ اللّٰہ تعالیٰ ہمیں قول اور فعل کے تضاد سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے ،آمین۔

 اختر انصاری