کسی عالم دین کا ثقہ ہونا کیسے معلوم ہوگا

اگر اس سوال کا جواب سمجھ آ جائے تو بہت سارے مسائل ہمارے آسان ہو جائیں گے۔ اور اس کا جواب یقین کریں بہت آسان ہے۔
اس کا ایک ہی جواب ہے ” سند”
ہمارا مکمل دین ہم تک سند کے ساتھ پہنچا ہے اور سند کا اس مبارک سلسلہ کا آغاز آدم علیہ السلام سے ہوا تھا اور قیامت تک جاری رہے گا۔
اسی سند کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
یہ سند کیا ہے، “ایک تو مولوی حضرات نے دین کے سمجھنے سمجھانے کو بہت محدود کر دیا ہے، بھئی دین سب کے لیے ہے ہر کوئی سمجھ سکتا ہے سمجھا سکتا ہے۔”
جدیدیت و الحادیت کے اس شیطانی مغالطہ کو سمجھنے اور اس کا ازالہ کرنے کے لیے “سند” کو سمجھنا از حد ضروری یے۔
چلیں اس سند کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
دین کا سب سے پہلا مصدر قرآن مجید ہے اس کی سند کا جائزہ لیتے ہیں۔
اللہ تعالی۔۔۔۔ جبرئیل علیہ السلام۔۔۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ۔۔۔۔۔تابعین کرام رحمھم اللہ جمیعا۔۔۔۔۔ تبع التابعین رحمہم اللہ ۔۔۔۔ قراء حضرات رحمھم اللہ ۔۔۔۔۔۔ حفظھم اللہ جاری و ساری
دین کا دوسرا مصدر حدیث مبارک ہے اس کی سند کا جائزہ لے لیتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ ۔۔۔۔۔ جبرئیل علیہ السلام ۔۔۔۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ۔۔۔۔ تابعین کرام رحمہم اللہ اجمعین ۔۔۔۔ محدثین رحمہم اللہ اجمعین ۔۔۔۔ رحھم اللہ ۔۔۔۔۔ حفظھم اللہ ۔۔۔۔۔۔ جاری و ساری
دین کے دونوں بنیادی مصدر ہمیں سند سے ملے ہیں۔
یہ تو ایک لطیفہ بلکہ کثیفہ بلکہ غلیظہ ہے کہ قرآن مجید کو مانتے ہیں کہ وہ اللہ کا کلام ہے لیکن حدیث کے حوالے سے شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہیں۔
ویسے شکوک و شبہات کا اظہار کرنے والے سب عقل کے ہائیکورٹ ہیں بلکہ سپریم کورٹ ہیں۔
سند ایک ہی ہے اللہ تعالی سے ہم تک
اسی سند سے قرآن کو مان لیتے ہیں حدیث کا انکار کرتے ہیں۔
بہرحال انکار حدیث ایک الگ موضوع ہے جس پر پھر کبھی سہی۔۔۔ سر دست سند ہر بات کرنی ہے۔
دین کس سے لینا اور سمجھنا چاہیے بھئی ثقہ علماء سے لو اور سمجھو ، اتنی سی بات ہے کوئی لمبی چوڑی الف لیلہ کی داستان نہیں یے یہ۔
یہ ثقہ علماء کون سے ہیں یا کون ہوتے ہیں۔
اس کا جواب بھی وہی ہے جن علماء کی سند صحیح ہے وہ ثقہ ہیں ۔ آج کل میں اپنے محبوب شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کو پڑھ رہا ہوں کمال بندہ تھا ہمہ جہتی علم کا حامل۔
متکلمین کو انہی کی زبان میں سمجھانے والا
ہر فن کے حاملین کو انہی کی زبان میں سمجھانے والا
اللہ کی ایک نشانی تھا وہ شخص۔
اچھا اچھا ہم سند پر بات کر رہے تھے تو مثال لیتے ہیں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی اور پھر عصر حاضر کے بعض علماء کی مثال لیتے ہیں تو بات واضح ہو جائے گی۔
حافظ ابن قدامہ فرماتے ہیں:’’شيوخه الذين سمع منهم اكثر من مأتي شيخ‘‘(کواکب :ص :139، بحوالہ امام ابن تیمیہ: 29،ازغلام جیلانی برق)۔
ان میں سے چند مشہور اساتذہ کے نام درج ذیل ہیں:
(۱) زین الدین ابو العباس احمد بن عبد الدائم ۵۷۵ھ تا ۶۶۸ھ
(۲) مجد الدین ابو عبداللہ محمد بن اسماعیل ۵۸۷ھ تا ۶۶۹ھ
(۳)شمس الدین ابو محمد عبد الرحمن بن ابی عمر ۵۹۷ھ تا ۶۸۲ھ
(۴)سیف الدین ابو زکریا یحییٰ بن عبد الرحمن ۱۰۶ھ تا ۶۸۲ھ
(۵)کمال الدین ابو نصر عبد العزیز بن عبد المنعم ۵۸۵ھ تا ۶۷۲ھ
(۶) تقی الدین ابو محمد اسماعیل بن ابراہیم ۵۸۹ھ تا ۶۷۲ھ
(۷) زین الدین ابو العباس احمد بن ابی الخیرسلامہ ۹۰۶ھ تا ۶۷۸ھ
ان میں سے ہر ایک کے اساتذہ کا سلسلہ معلوم کیا جائے تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے جا ملتا ہے۔ یعنی ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی سند ثقہ ثابت ہو گئی۔
اب جو سند ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے جاری ہوئی اس کا بھی جائزہ لے لیتے ہیں۔
آپ کے تلامذہ کی فہرست بڑی لمبی ہے ۔چند مشہور کے نام درج ذیل ہیں:
(۱) حافظ ابن قیم رحمہ اللہ علیہ ۶۹۱ھ تا ۷۵۱ھ
(۲) حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ علیہ ۱۰۷ھ تا ۷۷۴ھ
(۳) حافظ ابن عبد الہادی رحمہ اللہ ۷۰۴ھ تا ۷۴۴ھ
(۴) حافظ ذہبی رحمہ اللہ ۶۷۳ھ تا ۷۴۸ھ
(۵) شیخ ذباہی رحمہ اللہ ۶۶۶ھ تا ۷۱۱ھ
(۶) شیخ بدر الدین ۶۷۶ھ تا ۷۳۹ھ
(۷) احمد بن قدامہ مقدسی ۶۹۳ھ تا ۷۶۱ھ
(۸) شیخ نور الدین ابن الصایغ ۶۹۶ھ تا ۷۴۹ھ (ماخوذ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ از یوسف کوکن عمری )
اب شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے اساتذہ و شاگردوں کو معلوم کر لیں تو ثابت ہو جائے گا کہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ ثقہ ہیں ان سے دین لیا بھی جا سکتا ہے سمجھا بھی جا سکتا ہے۔
عصر حاضر کے بعض مشہور و معروف مشائخ کے حالات زندگی لکھنے کا اہتمام ہمارے ایک فیس بکی دوست کر رہے ہیں امجد ربانی سلمہ اللہ ، بے شمار علماء کے اساتذہ و شاگردوں کا علم مجھے ان کی پوسٹوں سے معلوم ہوا لنک کمنٹ میں شئیر کر رہا ہوں۔
تو آپ بھی جس عالم دین سے دین حاصل کرنا چاہتے ہیں سمجھتا چاہتے ہیں اس کی سند معلوم کریں اس کے اساتذہ کون ہیں، اس کا تعلیمی ادارہ کون سا ہے، اور اب وہ کس تعلیمی ادارے کے ساتھ وابستہ ہے اس کے شاگردوں کے نام معلوم کریں۔
یہ بات اس لیے کر رہا ہوں کہ
خدارا دین بہت قیمتی ہے اسے ہر ایرے غیرے نتھو سے نہ لیں جیسے ہر دنیاوی علم کو اس کے ثقہ لوگوں سے لیتے ہیں سمجھتے ہیں وہاں بھی ایک سند ہوتی ہے تو دینی علوم کی بھی ایک سند ہے بلکہ عالی سند ہے اور اسے ثقہ لوگوں سے اخذ کریں۔
سوشل میڈیائی مذہبی پہلوان، موٹی ویش نل لفاظ، اور اپنے محض مطالعہ کی بنیاد پر بات کرنے والے، ایسے لوگوں سے اجتناب کریں صرف ان لوگوں سے دین حاصل کریں جنہوں نے باقاعدہ اساتذہ سے علم حاصل کیا اس کے اصول و ضوابط سمجھے اصول و ضوابط کا انطباق کرنا جانتے ہیں، حکمت و تدبر جانتے ہیں، فتویٰ سے زیادہ اصلاح و دعوت پر ترکیز کرتے ہیں۔
بس مجھے تو یہی سمجھ آئی ہے۔
و اللہ اعلم بالصواب

شاہ فیض الابرار صدیقی

یہ بھی پڑھیں: طالب علم ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا مطالعہ کب کرے؟