سوال (1554)

کسی عورت پر الزام لگانا اور اس کو ایسی ویسی کہنے کا شرعی حکم کیا ہے؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں اس کی کیا سزا ہے؟

جواب

سوال واضح نہیں ہے۔ اگر تو اس سے کسی عورت پر بدکاری وغیرہ جیسا الزام مراد ہے، تو الزام لگانے والے کی ذمہ داری ہے کہ وہ چار گواہ پیش کرے جو سب گواہی دیں کہ ہم نے واقعتا مرد اور عورت کو غلط کاری کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ اور اگر گواہ پیش نہ کیے جا سکیں تو اس کی دو صورتیں ہیں:
1۔ ایک صورت یہ ہے کہ اس کا خاوند اس پر الزام لگائے کہ تم بدکردار عورت ہو اور تمہارا چال چلن درست نہیں۔
تو ایسی صورت میں میاں بیوی کے درمیان لعان کروایا جائے گا اور پھر دونوں مین علیحدگی کروا دی جائے۔ پھر ان میں سے جو بھی جھوٹا ہوگا، اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے۔
2۔ دوسری صورت یہ ہے کہ خاوند کے علاوہ کوئی کسی عورت پر الزام لگائے تو ایسے شخص کو عدالت اور قاضی اسی (80) کوڑوں کی سزا دے گا اور اسے فاسق ڈکلیئر کیا جائے گا اور کسی بھی معتبر معاملہ میں اس کی گواہی قبول نہیں کی جائے گی۔
اور ایسے لوگوں کو اللہ تعالی نے دنیا و آخرت میں ملعون قرار دیا ہے اور انہیں عذابِ عظیم کی وعید سنائی ہے۔
ان سب چيزوں کی تفصیل اٹھارویں پارے میں سورۃ النور کی ابتدا میں موجود ہے۔
البتہ ایسا مرد یا عورت جس پر الزام تراشیاں کی جاتی ہیں، اس کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے رہن سہن میں مزید احتیاط کرے اور ایسے مقامات اور تعلقات سے کنارہ کشی اختیار کرے، جس وجہ سے اس پر الزام تراشیاں ہوتی ہیں، جیسا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایک بارے اپنی بیوی کے ساتھ رستے سے گزر رہے تھے، تو آپ نے دیکھنے والے صحابہ کرام کو باقاعدہ بتایا کہ یہ میری بیوی صفیہ ہے۔ تاکہ دیکھنے والا کسی قسم کے غلط شبہے میں مبتلا نہ ہو۔ [صحيح البخاري:3101]

فضیلۃ العالم خضر حیات حفظہ اللہ