سوال (1373)

ہمارے ایک عزیز رشتہ دار کی قبر اسلام آباد میں ہے، کیا ہم ان کی قبر کی زیارت اور ان کے لیے دعا کرنے کے لیے لاہور سے اسلام آباد کا سفر کر سکتے ہیں؟

جواب

قبر کی زیارت یا اس کے لیے دعا مانگنے کے لیے سفر کرنا مشروع نہیں ہے۔ کیونکہ یہ سفرِ عبادت ہے، اور سفرِ عبادت کسی خاص چیز کا قصد کر کے کرنا جائز نہیں، سوائے تین مساجد کے، یعنی مسجد حرام، مسجد نبوی اور مسجد اقصی، جیسا کہ مشہور حدیث ہے:

(لا تَشُدُّوا الرِّحالَ إلَّا إلى ثلاثَةِ مساجِدَ: مسجدي هذا، والمسجِدِ الحرامِ، والمسجِدِ الأقصى). [بخارى: 1189، مسلم: 827]

باقاعدہ اہتمام سے سفر کرنا جائز نہیں سوائے تین مساجد کے، جو کہ یہ ہیں: مسجد نبوی، مسجد حرام، مسجد اقصی’۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ وغیرہ اہل علم نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ ان تین مساجد کے علاوہ دیگر مقامات چاہے وہ مساجد ہوں یا غیر مساجد جیسے مقابر وغیرہ، ان کی طرف اہتمام سے سفر کرکے جانا جائز نہیں ہے۔
ویسے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام سے ایسی کوئی چیز ثابت نہیں کہ وہ اپنے عزیز واقارب کی قبروں پر دعا کے لیے اسفار کرکے جایا کرتے تھے۔ واللہ اعلم۔
حتی کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ وغیرہ اہل علم نے تو اس بات کی بھی صراحت کی ہے کہ مدینہ کا قصد بھی مسجد نبوی کی وجہ سے کیا جائے نہ کہ زیارتِ قبر نبوی یا زیارتِ بقیع الغرقد وغیرہ کی غرض سے، ہاں وہاں جا کر یہ تمام زیارتیں مشروع بلکہ مستحب ہیں۔
اس پر ابن تیمیہ کے ایک شاگرد ابن عبد الہادی کی مفصل کتاب بھی ہے الصارم المنکی کے نام سے، جس میں انہوں نے ابن تیمیہ کے موقف کی وضاحت اور ان کے مخالف موقف رکھنے والے امام سبکی کا تفصیل رد فرمایا ہے۔ رحم اللہ الجمیع۔
خلاصہ یہ ہے کہ عزیز کے لیے دعائے مغفرت آپ اپنے مقام سے ہی کر دیں، دعا کے لیے قبرستان میں جانا ضروری نہیں ہے، لیکن جب کبھی کسی مناسبت سے اسلام آباد جانے کا موقع بنے، پھر وہاں قبرستان میں جا کر بھی دعا کی جا سکتی ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔

فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ