سوال (3162)

کیا عمرے کی نیت کسی بھی زبان میں کی جا سکتی ہے؟

جواب

نیت دل کے ارادے کا نام ہے، اب جو جس زبان کا مالک ہوتا ہے، اس کا ارادہ اسی زبان میں اس کے دل سے گذرتا ہے، بس یہی نیت ہے، باقی اس نے اگر زبان سے ادا کرنا ہے، جس کی گنجائش عمرے اور حج میں موجود ہے، پھر وہ کتاب سے دیکھ کر ادا کرلے، باقی وہ واجب کے درجے میں نہیں ہے، نیت کا ہی اعتبار ہوگا، نیت دل کے ارادے کا نام ہے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

تمام عبادات میں نیت شرط ہے اور نیت صرف دل کے ارادے کا نام ہے، زبان سے تلبیہ پڑھتے ہوئے اس کے الفاظ “اللهم لبيك عمرة” وغیرہ ادا کرنا مسنون و مستحب ہے، یہ الگ سے مستقل ذکر ہے اس کا نیت سے کوئی تعلق نہیں۔ واللہ أعلم

فضیلۃ الباحث حافظ محمد طاہر حفظہ اللہ

سائل:
“لبيك عمرة ” نیت ہے یا نیت سے الگ شی ہے؟
جواب:
نیت سے الگ مستقل ذکر ہے، نیت کا زبان سے ادا کرنا تو کسی عبادت میں مشروع نہیں ہے، وگرنہ نیت کا تعلق دل سے ہونے والی ساری بحث ختم ہوجائے گی۔

وإنَّما هي نيَّة محلُّها القلب، ولا فرق في هذا بين الحَجِّ وغيره حتى الحجُّ لا يُسَنُّ للإنسان أن يقول: اللهم إني نويت العُمْرَة، أو نويت الحجَّ، لأنه لم يُنقل عن النبيِّ صلّى الله عليه وسلّم، ولكن يُلبِّي بما نوى والتلبية غير الإخبار بالنيَّة، لأن التلبية تتضمَّن الإجابة لله، فهي بنفسها ذِكْرٌ ليست إخباراً عمَّا في القلب، ولهذا يقول القائل: لبَّيك عُمرة أو لبَّيك حَجّاً.
[الشرح الممتع للشيخ ابن العثيمين]

فضیلۃ الباحث حافظ محمد طاہر حفظہ اللہ

بعض سلف سے نیت کے الفاظ وارد ہوئے ہیں۔
لیکن سارے ادلہ اور جمہور سلف کو سامنے رکھتے ہوئے یہی صحیح ہے کہ نیت دل کے ارادے کا نام ہے، باقی “لبيك عمرة” الگ ذکر ہے، جیسے نماز کے لیے اللہ اکبر کہا جاتا ہے۔

فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ