سوال

اگر ہم گاڑی بک کروائیں  تو پانچ چھ مہینے بعد ملتی ہے پچیس لاکھ کی۔اگر وہی گاڑی ارجنٹ لیں تو وہ تین چار لاکھ زیادہ لیتے ہیں کیا یہ کاروبار صحیح  ہے؟

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

شو روم والے کمپنی کو پہلے رقم دے کر گاڑی بک کروا لیتے ہیں، مثال کے طور پر 25 لاکھ جمع کروا دیتے ہیں گاڑی کی تیاری میں تین ماہ لگ جاتے ہیں اور تین ماہ کے بعد  گاڑی شوروم والوں کو مل جاتی ہے۔

اسی طرح جو ڈیلر ہوتے ہیں انہوں نے بھی کمپنی کو پہلے پیسے جمع  کروائے  ہوتے ہیں، ان کو ہر ماہ ایک گاڑی ملتی رہتی ہے، جب کوئی گاہک ڈیلر کے پاس جاتا ہے تو  ڈیلر کہتا ہے رقم جمع کروا دیں ،گاڑی 3 ماہ کے بعد 25 لاکھ کی ملے گی، اگر ارجنٹ لینی ہے تو پھر دو تین لاکھ زیادہ دینا پڑے گا، حالانکہ پہلے پیسے جمع کروانے کی وجہ سے گاڑی اس کے پاس موجود ہوتی ہے۔

تقریباً ہر گاہک چاہتا ہے مجھے گاڑی جلدی مل  جائے،  اس لیے وہ زیادہ پیسے دینے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں اس طرح ڈیلر حضرات کو زیادہ فائدہ ہو جاتا ہے۔

ہمارے رجحان کے مطابق اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ چونکہ ڈیلر نے رقم خرچ کر کے گاڑی لی ہوئی ہوتی ہے،  جب وہ گاڑی کا مالک ہوتا ہے تو اس کی مرضی وہ گاڑی جتنے کی  چاہے بیچے۔

پہلے سے ہی دونوں ڈیلز کو الگ الگ واضح کر دینا کہ فوری گاڑی لیں گے تو اتنے کی ملے گی، اگر تین ماہ انتظار کریں گے تو اتنے کی ملے گی، تو اس میں کوئی حرج نہیں، یہ جائز ہے۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ مفتی عبد الولی حقانی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  محمد إدریس اثری حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ عبد الحنان سامرودی حفظہ اللہ