سوال (4498)
کسی انسان کو بدنسل کہنا، یا کچھ عادات کو بدنسلی کی نشانی قرار دینا، شرعا کیسا ہے؟ کیا یہ طعن فی النسب میں نہیں آتا؟
جواب
کسی انسان کو “بدنسل” کہنا یا کسی عمل کو “بدنسلی کی نشانی” قرار دینا: یہ بات شرعاً سخت ناپسندیدہ، گناہ، اور طعن فی النسب (نسب پر طعن کرنا) میں داخل ہو سکتی ہے، خصوصاً اگر مقصد کسی کے نسب یا خاندانی شرافت پر حملہ ہو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سختی سے طعن فی النسب سے روکا ہے:
عن أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قال: قال رسولُ الله ﷺ “اثْنَتَانِ في الناسِ هما بِهِم كُفْرٌ: الطَّعنُ في النَّسَبِ، والنِّيَاحَةُ على الميِّتِ”(صحيح مسلم: 67)
لوگوں میں دو خصلتیں ایسی ہیں جو کفر کے قریب ہیں: نسب میں طعن کرنا، اور میت پر نوحہ کرنا
“بدنسل” کہنا گویا یہ کہنے کے مترادف ہے کہ فلاں کی نسل یا نسب خراب ہے، یا اس کے خاندان میں اخلاقی یا دینی کمزوریاں ہیں۔ یا براہ راست نسب پر حملہ ہے، جو حرام ہے۔ یا تحقیر اور تذلیل ہے، جو غیبت اور توہین میں آتا ہے۔
یہ الفاظ بسا اوقات نسلی تفاخر یا تکبر کی علامت ہوتے ہیں، جس سے اسلام سختی سے منع کرتا ہے۔
اگر کسی عمل کو “بدنسلی کی علامت” کہا جائےتو بھی یہ غلط اسلوب ہے، کیونکہ اس میں غیر شریعی انداز میں کردار کی بجائے نسب کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ جبکہ شریعت نے عمل کو بنیاد بنایا ہے، نسب کو نہیں۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
“إن الله لا ينظر إلى صوركم ولا إلى أموالكم ولكن ينظر إلى قلوبكم وأعمالكم” (صحيح مسلم: 2564)
اللہ تمہارے چہروں اور مال کو نہیں دیکھتا، بلکہ تمہارے دلوں اور اعمال کو دیکھتا ہے۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ نے فرمایا: نسب پر طعن کرنا مثلاً “تو فلاں قوم کا ہے، اس لیے ایسا ہے” کہنا، حرام ہے۔ یہ جاہلیت کا طریقہ ہے۔
فضیلۃ الشیخ فیض الابرار شاہ حفظہ اللہ
اگر ایسا شخص جو حد درجہ بدتمیز ہو، علماء کی توہین کرتا ہو، دجل و فریب سے کام لیتا ہو، علماء کو بدنام کرتا ہو، دین اسلام کے خلاف کام کرتا ہو، اس کی شرارت بڑھ چکی ہو، لوگوں کو گمراہ کر رہا ہوں، رک ٹوک کے باوجود سمجھ نہیں رہا ہو تو بطور زجر کہنے مین کوئی حرج نہیں ہے۔ جیسا کہ قرآن نے کہا ہے کہ:
“عُتُلٍّ ۢ بَعۡدَ ذٰلِكَ زَنِيۡمٍۙ” [القلم: 13]
«سخت مزاج ہے، اس کے علاوہ بدنام ہے»
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ