سوال (2651)

اگر کوئی شخص یہ کہے کہ اگر میں فلاں کام کروں یا میں نے کیا ہو، تو میں کافر ہو جاؤں، تو کیا اس طرح وہ کام کرنے کی صورت میں انسان کافر ہو جاتا ہے؟ مثال کے طور پر کوئی شخص اپنی بیوی کو کہے کہ میں فلاں گھر نہیں جاؤں گا اور اگر جاؤں تو کافر ہو جاؤں. تو کیا یہ کہنا درست ہے اور کیا اس سے انسان کافر ہو جاتا ہے یا نہیں؟

جواب

اس سلسلے میں اہل علم کی بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر وہ اس طرح کے جملے ادا کرکے اس کام سے دور رہنا چاہتا تھا، جس کام کے ساتھ اس نے اپنے کفر کو معلق کیا ہے تو پھر کافر نہیں ہوگا، باقی اس کو توبہ و استغفار تو ہر وقت کرنی چاہیے، اگر نیت یہ تھی تو پھر وہ کفر میں داخل ہو جائے گا، اس کو کلمے کی تجدید کرنی چاہیے، ساتھ ساتھ توبہ و استغفار بھی کرے، معاملہ دل کے ارادے اور نیت کے ساتھ چلتا ہے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

اس طرح کی بات کہنا یہ ناجائز ہے حرام ہے اور اگر کسی نے ایسا کہہ کر وہ کام کر بھی دیا ہے تو اس مسئلہ میں ائمہ کا مختلف جہات سے کافی اختلاف ہے۔ جس نتیجہ پر راجح سمجھتے ہوئے میں پہنچا ہوں وہ یہ ہے کہ اگر کوئی بندہ کہے کہ
“میں نے اگر فلاں کام کیا تو میں کافر ہو جاؤں گا”تو اگر وہ فلاں کام کر لے تب بھی وہ کافر نہیں ہوگا الا یہ کہ وہ دل میں کافر ہونے کا باقاعدہ قصد کر لے تو وہ کافر ہو جائے گا۔
دوسری بات یہ ہے کہ اگر اس طرح کہہ کر وہ کام کر بھی جاتا ہے تو اسے بعض علماء نے قسم قرار دیا ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ قسم نہیں ہے-
اس اختلاف میں احوط یہی سمجھ آتا ہے کہ اسے قسم قرار دے کر قسم کا کفارہ اس پر واجب کر دیا جائے۔
قال شيخ الإسلام ابن تيمية– رحمه الله-:

وأما إذا التزم محرَّما مثل أن يقول: إن فعلت كذا فعلي إهانة المصحف ! ونحو ذلك: فهنا ليس له ذلك باتفاق العلماء، وفي وجوب الكفارة النزاع المتقدم؛ وكذلك إذا التزم حكماً لا يجوز التزامه مثل قوله: إن فعلت كذا فهو يهودي أو نصراني، فهذا لا يجوز له التزام الكفر بوجه من الوجوه ولو قصد ذلك لكان كافراً بالقصد.
[مجموع الفتاوى: 33 / 203]

خلاصہ یہ نکلا کہ یہ بندہ کافر نہیں ہوا الا یہ کہ باقاعدہ دل میں کفر کا قصد کر لے اور اس پر توبہ کرنا لازم ہے اور ساتھ میں قسم کا کفارہ دینا بھی لازم ہے۔

واللہ اعلم۔

فضیلۃ العالم فہد انصاری حفظہ اللہ

اس طرح کے کاموں سے دور رہنا چاہیے، ایسے انسان کی قسم کی اصل حقیقت اس کی نیت پر موقوف ہے۔ لیکن اگر وہ اپنی اس نیت میں سچا ہے تو اس نے یہ کام کر بھی لیا ہے تو اسے توبہ واستغفار کرنا چاہیے۔ اور دوبارہ ایسا نہ کرنے کا عزم صمیم، پھر قسم کا کفارہ ادا کرے.

قال الله تعالى: قَدْ فَرَضَ اللَّهُ لَكُمْ تَحِلَّةَ أَيْمَانِكُمْ، وقال النبي صلى الله عليه وسلم: عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: من حلف على يمين فرأى غيرها خيرا فليأت الذي هو خير وليكفر عن يمينه.

فضیلۃ الباحث ابو دحیم محمد رضوان ناصر حفظہ اللہ