سوال (2688)

کیا کسی معزز شخصیت کے ہاتھ چومے جا سکتے ہیں؟

جواب

عقیدت و محبت کے جذبے سے کسی محترم شخصیت کے ہاتھ چومنے میں کوئی حرج نہیں۔

فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

جو چیزیں ہم اللہ کے لیے کرتے ہیں، یعنی قیام یا رکوع تو ان سے مشابہت سے اجتناب کرنا چاہیے، ہاتھ تو انسان ماں باپ کے بھی چومتا ہے، بہن اپنے بھائیوں کے بھی چومتی ہے، اس کو کبھی کسی نے اس طرح تصویر لگا کر اعتراض نہیں کیا ہے، پس محبت و عقیدت سے ایسا کرنا کہیں ممنوع نہیں، شرک اس کو کہتے ہیں کہ جو اللہ کے لیے کرتے ہیں، وہ کسی اور کے لیے کریں اور اللہ کے لیے قیام اور رکوع اور سجدہ ہوتا ہے جو کسی اور کے لیے نہیں ہونا چاہیے، یہاں یہ یاد رہے کہ بعض قیام کسی کے استقبال کے لیے ہو تو وہ ممنوع نہیں ہو گا کیونکہ اس قیام میں تعظیم کی بجائے استقبال کی نیت ہے جو کسی کے لیے بھی ہو سکتا ہے جیسا کہ حدیث میں سعد بن معاذ کے استقبال کے لیے کھڑے ہونے کی بات ہے اسی طرح اگر ہاتھ نیچے ہونے کی وجہ سے چومنے کے لیے کچھ جھکنا پڑے تو وہ رکوع وہ نہیں ہو گا جو ممنوع ہے. واللہ اعلم

فضیلۃ الباحث ارشد محمود حفظہ اللہ

سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کے بارے ایسا فرمانا اس لیے تھا کہ وہ زخمی تھے جیسا کہ اسی مجموعہ میں ایک سوال کے جواب میں وضاحت ہو چکی ہے، کسی ثقہ عالم دین، استاذ گرامی اور والدین کے محبت و احترام کے ارادہ سے ہاتھ چومنا انہیں بوسہ دینا بالکل جائز ہے، سلف صالحین اس کا اہتمام کرتے تھے، میں اس پر کئی آثار جمع کر چکا ہوں، بس اسانید کو دیکھنا باقی ہے۔

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ