سوال (5142)
اگر کوئی شخص دوسرے مسلمان پر “کفرِ اکبر” (یعنی اسلام سے خارج کرنے والا کفر) کا فتویٰ لگاتا ہے، اور حقیقت میں وہ مسلمان کافر نہیں ہوتا، تو حدیث کے مطابق یہ کفر اس فتویٰ لگانے والے پر لوٹ آتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا وہ لوٹنے والا کفر “کفرِ اکبر” شمار ہوگا، جس سے وہ شخص خود بھی دائرۂ اسلام سے خارج ہو جائے گا؟ یا اسے “کفر دون کفر” (یعنی غیر مخرج عن الملة) سمجھا جائے گا؟
جواب
اس مسئلہ پر مفتی عبد الستار حماد صاحب کی کتاب مسئلہ ایمان وکفر کا مطالعہ کریں
یہ کتاب غالباً اسی نام سے ہے۔
اس کے علاوہ مسئلہ تکفیر پر مولانا رفیق طاھر صاحب کا رسالہ مفید رہے گا اور شیخ مبشر أحمد ربانی رحمه الله تعالى کی کتاب بھی مفید ترین ہے۔
تکفیر معین بلا دلیل و اتمام حجت کے بغیر اور موانع کے موجود ہونے کے باوجود لگانا صریح خوارج کا منہج وعمل ہے۔
جس کسی میں شرک وکفر کی کوئی سی قسم دیکھیں تو پہلے اسے عدم علم وجہالت کی بنیاد پر کیے جانے والے اول و فعل پر اچھی طرح سمجھائیں حتی کہ وہ یہ جان لے کہ اس کا عمل وقول حقیقت میں واضح کفر وشرک ہے۔
سمجھانے کے بعد بھی اگر وہ اپنے اندر موجود کفر وشرک سے تائب نہیں ہوتا تو پھر اسباب کفر کے ساتھ موانع دیکھیں قرائن دیکھیں یہ سب مکمل ہیں تو تو دیکھیں کہ وہ بلاتاویل کفر وشرک میں مبتلا ہے اور موانع میں سے کوئی چیز بھی باقی نہیں تو اس پر کبار علماء کرام ومشایخ عظام معین فتویٰ صادر کریں گے۔ والله أعلم بالصواب
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ
ہمارے نزدیک جس درجے کا اس نے فتویٰ دیا ہوگا، وہ فتویٰ اس پر لوٹ آئے گا، اب یہ فیصلہ وہ کرلے، اس نے کس درجے کا فتویٰ لگایا ہے، اگر مخرج عن الملۃ کا لگایا ہے تو تیار رہے، اگر وہ نہیں ہے تو گناہ کبیرہ کا فتویٰ ہے، کفر دون کفر کا فتویٰ ہے تو اگر وہ ایسا نہیں ہے تو اس کے لیے تیار رہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ