سوال (3903)

ایک شخص کو اگر ایک چیز کی ضرورت ہے اور وہ کسی کو کہتا ہے کہ مجھے یہ چیز لے کر دو اور ضرورت مند بندے کو پتا ہے کہ یہ چیز 3000 کی ہے، لیکن جو شخص وہ چیز لے کر دے رہا ہے وہ کہتا ہے کہ میں آپ کو وہ لے تو دو گا، لیکن 4000 کی دوں گا آپ مجھے ہزار ہزار کر کے پیسے واپس کر دینا تو کیا یہ صحیح ہے یا نہیں کیوں کہ بندہ اپنے پیسوں سے لے کر دے رہا اور اور پیسے بھی قسطوں پر واپس لے رہا ہے اور دونوں کی رضا مندی بھی ہے۔

جواب

اگر یہ معاملہ قسطوں والا براہ راست دوکاندار سے کیا جائے تو جائز ہے کہ چیز کی قیمت قسطوں کی صورت میں متعین ہے۔
لیکن دوکاندار کے قسطوں پر نہ دینے کی صورت میں اس تیسرے شخص کو بیچ میں داخل کرنا، اور اسے پابند کرنا کہ آپ نقد میں یہ سامان خریدیں بغضِّ نظر اس کے کہ قبضہ میں لیں یا نہ لیں اور دوسری پابندی یہ کہ پھر یہی سامان میں آپ سے قسطوں پر لوں گا!
سودی قرضے کو حلال کرنے کا ایک حیلہ ہے۔
نیز ایک بیع میں دو شرطیں بھی ہیں۔
مزید یہ کہ اگر تیسرے شخص کے سامان خرید لینے کے بعد یہ اس سے قسطوں والا معاملہ نہ کرے تو کون سی دلیل اسے پابند کرتی ہے؟
اس میں مخاصمہ کا بھی اندیشہ ہے۔
لہذا ہماری ناقص رائے کے مطابق یہ معاملہ جائز نہیں، گویا سودی قرضہ کو حلال کرنے کا حیلہ کیا جارہا ہے کہ یہ تیسرا شخص ڈائریکٹ 3000 قرض دے کر 4000 وصول کرنے کے سودی معاملہ کو اس حیلہ سے جائز کرنا چاہ رہا ہے۔ واللہ اعلم۔

فضیلۃ العالم فہد انصاری حفظہ اللہ