سوال (2668)
کیا کسی شخص کو منافق کہا جا سکتا ہے؟
جواب
کسی کو معین کر کے منافق کہنے کا اختیار رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کو بھی نہیں تھا یہی وجہ ہے کہ رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم پر منافقین کا نفاق وحی نازل فرما کر کیا ظاہر کیا گیا اور وحی کے نازل ہونے سے پہلے تک کبھی رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نے منافقین کو منافق قرار نہیں دیا تھا تو اس سے ثابت ہوا کہ کسی بھی شخص کو کسی پر منافقت کا حکم لگانے کا اختیار نہیں ہے اور جو ایسا کرتا ہے وہ رب العالمین کا اختیار اپنے ذمے لے رہا ہے جو سراسر گمراہی ہے ۔
یاد رکھیں منافقین کا نفاق ظاہر ہونے کے باوجود رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نے کبھی انہیں معین کر کے منافق نہیں کہا تھا حتی کہ وہ درحقیقت منکرین اسلام منکرین ختم نبوت تھے اور ان کی عداوت و منافقت بھی کھل عام تھی ۔
تو جب رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نے حقیقی منافقین کو معین کر کے کافر و منافق قرار نہیں دیا ہے ، جبکہ ان کے بارے واضح احکام بھی موجود تھے ، ان کی نماز جنازہ اور دعا کرنے تک سے روک دیا گیا تھا تو کسی عام شخص کو کس نے حق اور اختیار دیا ہے کہ وہ کسی کے منافق ہونے اور کافر ہونے کا فیصلہ کرے ۔ اور عبدالله بن أبي وغیرہ کو اس لیے صاف الفاظ میں کافر اور قتل کرنے کا حکم نہیں دیا گیا کہ وہ ظاہری طور پر ایمان لائے تھے فرائض کی کسی حد تک پابندی کرتے تھے تو فتنہ برپا ہونے کے سبب ایسا کرنے سے گریز کیا گیا ۔
تو جو حقیقت میں ایمان لا چکے بس ان میں منافقین والی صفات موجود ہیں تو اس بنیاد پر یا ان میں واقعی کوئی کفر اکبر والی صفت و بات ہو تب بھی ہم کسی مسلم کو معین کر کے منافق و کافر نہیں کہہ سکتے ہیں ۔ اور جو ایسا کرے گا وہ فتنہ خوارج اور گمراہی کا شکار ہو چکا ہے ۔
اسباب کفر و شرک موجود ہونے کے ساتھ موانع کا بھی خیال رکھنا چاہیے اور معین تکفیر کے اصول وقواعد و حدود کا بھی خیال رکھنا چاہیے ہے ۔
بس ہم پر اصلاح کرنا لازم ہے نہ کہ کفر و نفاق کے فتوے صادر کرنا ۔
هذا ما عندي والله أعلم بالصواب
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ
واضح رہے کہ نفاق ایک مخفی چیز ہے، جس کے بارے میں بالیقین فیصلہ کرنے کا کسی کو حق نہیں ہے۔
نفاق کی دو قسمیں ہیں۔
(1) : اعتقادی نفاق
(2) : عملی نفاق
(1) اعتقادی نفاق:
وہ شخص جو بظاہر مسلمان ہو، لیکن اندر سے اسلام کا دشمن ہو ، جیسا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کے منافقین تھے۔ مثلاً: عبداللہ بن ابی
اعتقادی نفاق بندے کو دائرہ اسلام سے ہی خارج کردیتا ہے ، اعتقادی منافق کا علم وحی کے بغیر نہیں ہو سکتا ہے۔
(2) : عملی نفاق:
وہ شخص جو عقیدے کے اعتبار سے تو پکا اور سچا مسلمان ہو ، لیکن اس کے اندر منافقین سے ملتی جلتی عادتیں ہوں ، مثلاً جھوٹ بولنا ، وعدہ خلافی کرنا اور خیانت وغیرہ کا مرتکب ہونا ، جھگڑے کے وقت بد زبانی کرنا ، اس جیسے اور برے افعال کی وجہ سے سخت گناہ گار ہوگا ، لیکن اسلام سے خارج نہیں ہوگا اور ایسا مسلمان شخص کا عمل منافقوں والا کہلاتا ہے۔
باقی اگر کوئی جھوٹ بولتا ہے یا خیانت کرتا ہے، تو اس کا عمل نفاق والا ہے، لیکن شریعت نے ہمیں مکلف نہیں بنایا ہے کہ ہم ہر کسی کو منافق کہتے پھریں، بلکہ اس بندے کی اصلاح کی کوشش کرنی چاہیے ۔
یاد رکھیں کہ ہمیشہ شخصیات پر نفاق اور کفر کے فتوے نہیں لگانے چاہیں، بلکہ افعال پر حکم لگتا ہے، جیسا جھوٹ بولنا نفاق کا عمل ہے، اس سے پرہیز کرنا چاہیے، لیکن جب آپ کسی کو فورا منافق کہیں گے تو اس سے برا اثر جائے گا، اس لیے کسی منافق کہنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔
فضیلۃ الباحث افضل ظہیر جمالی حفظہ اللہ
سائل:
اس میں سیدنا عمر اور عباس رضوان اللہ علیہم اجمعین کا مکالمہ نقل نہیں کیا گیا ہے ، جس میں ظاہر کی بنیاد پر نفاق کا تذکرہ ہے۔
جواب :
الفاظ “اللہ کے دشمن” اور “شہید” کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ، مگر یہ کوئی حتمی رائے نہیں تھی، یہ کوئی دو ٹوک موقف نہیں تھا ، بس یہ بات ہے کہ ان الفاظ سے اجتناب اولی ہے ، لیکن ہوگیا ہے تو کوئی حرج نہیں ہے ، باقی اجتناب سب سے بہتر ہے، اس لیے کہ ادب آداب کی تعلیم دی گئی ہے، کیونکہ ہم نفاق باطن پر مطلع نہیں ہوسکتے ہیں ، آج کے دور میں حقیقی شہید پر مطلع نہیں ہو سکتے ہیں، حقیقی اللہ کے دشمن پر ہم مطلع نہیں ہو سکتے ہیں، باقی ظاہر پر کچھ الفاظ استعمال ہوتے ہیں ، استعمال ہو بھی رہے ہیں، اس میں کوئی قباحت نہیں ہونی چاہیے، کیونکہ ظاہری نفاق ہر کوئی کرتا ہے جیسے وعدہ خلافی کرنا ، پھر اس طرح ایک دروازہ کھل جائے گا، یہ کسی بھی طرح مستحسن اقدام نہیں ہوگا۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
میں نے جو عبارت نقل کرنے کا کہا اس میں کوئی حکمت تھی، کسی کو حتمی جنتی، جہنمی، کافر، منافق قرار دینے کا کسی کو اختیار نہیں ہے، سوائے الله سبحانه و تعالى کے اور رب العالمین نے جن کے بارے فیصلہ فرما دیاکیا ان کے جنتی، جہنمی، کافر، منافق ہونے میں کوئی شبہ و شک نہیں ہے، آج بھی ادلہ و قرائن کی بنیاد پر کوئی رائے دی جا سکتی ہے ، نیک لوگوں کے بارے میں صرف حسن ظن رکھ سکتے ہیں کوئی حتمی فیصلہ نہیں کر سکتے۔
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ