سوال (2151)
ایک الیکٹرانکس کی دکان ہے، جو قسطوں کا کاروبار کرتے ہیں، جس میں سودی لین دین بھی ہوتا ہے، کیا وہاں ملازمت کرنا جائز ہے؟
جواب
قسطوں کے کاروبار کے بارے میں اہل علم کے ہاں دو آراء پائی جاتی ہیں۔ ہمارے نزدیک راجح موقف یہ ہے کہ قسطوں کاروبار جائز ہے، اگر اس میں کوئی اور خلاف شریعت چیز نہ ہو۔
قسطوں کا صحیح طریقہ کار یہ ہے کہ چیز فروخت کرنے سے پہلے اس کی قیمت مقرر کر لی جائے کہ اگر آپ نقد لیں گے تو اتنے کی ہو گی اور اگر قسطوں پر لیں گے، تو اتنے کی ملے گی۔ اور پھر اس کی پابندی کی جائے اور اگر قسطوں میں تاخیر وغیرہ ہو جائے تو اس کی قیمت میں اضافہ نہ کیا جائے، تو یہ درست ہو گا۔ لیکن اگر قسطوں کی تاخیر پر جرمانے وغیرہ کے نام سے اضافی پیسے لیے جائیں تو پھر یہ سودی کاروبار ہو گا، جو کہ جائز نہیں۔
عموما جو دکانیں یا ادارے لوگوں کو قسطوں پر اشیاء فروخت کرتے ہیں، ان کا کاروبار دوسری قسم کا ہی ہوتا ہے۔ لہذا اس میں شریک ہونا یا ملازمت کرنا ایسے ہی ہے، جیسا کہ کسی اور سودی ادارے کے ساتھ منسلک ہونا جو کہ جائز نہیں ہے۔
ارشاد باری تعالی ہے:
“وَتَعَاوَنُـوْا عَلَى الْبِـرِّ وَالتَّقْوٰى ۖ وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْـمِ وَالْعُدْوَانِ ۚ وَاتَّقُوا اللّـٰهَ ۖ اِنَّ اللّـٰهَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ”.[سورۃ المائدہ:2]
’ایک دوسرے سے تعاون کرو نیکی اور بھلائی کے کاموں میں، اور گناہ کے کاموں میں ایک دوسرے کا تعاون نہ کرو‘۔
اور حدیث میں آتا ہے:
“لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آكِلَ الرِّبَا وَمُؤْكِلَهُ وَشَاهِدَيْهِ وَكَاتِبَهُ”. [سنن ابى داؤد:1206]
’رسول اللہ ﷺ نے سود لینے والے، سود دینے والے، اس کے دونوں گواہوں اور اس کے لکھنے والے پر لعنت بھیجی ہے‘۔
گویا سودی کاروبار میں کسی بھی قسم کی شمولیت اور ملازمت جائز نہیں ہے۔
فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ