سوال
کیا میں ویڈیوز کے پیچھے وائس اوور کر سکتی ہوں؟ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ عورت کی آواز کا بھی پردہ ہوتاہے۔ لیکن اس ویڈیو میں میری صرف آواز ہو گی، اسلامی واقعات اور معاشرتی مسائل کا مواد ہو گا۔ اس بارے رہنمائی فرما دیں۔ جزاکم اللہ خیرا کثیرا
جواب
الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!
قرآن و حدیث میں ہمیں کوئی ایسی دلیل نہیں مل سکی جس سے معلوم ہو کہ عورت کی آواز واجب الستر ہے اور اس آواز کو اجنبی مرد نہیں سن سکتے۔ بلکہ ازواج مطہرات کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے:
“يَا نِسَاءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِّنَ النِّسَاءِ إِنِ اتَّقَيْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِي فِي قَلْبِهِ مَرَضٌ وَقُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوفًا”.[الاحزاب:32]
’اے نبیﷺ کی بیویو! تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو، اگر تم پرہیز گاری اختیار کرو تو نرم لہجے میں بات نہ کرو مبادا جس کے دل میں روگ ہو وہ کوئی برا خیال وابستہ کر لے اور وہ بات کہو جو اچھی ہو‘۔
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے ازواج مطہرات کو آواز کے متعلق ہدایات دی ہیں، کہ وہ مردوں سے گفتگو کرتے وقت قصداً ایسا لب و لہجہ اختیار نہ کریں، جس کی وجہ سے کوئی بد باطن اپنے دل میں کوئی برا خیال پیدا کر لے۔ چونکہ عورت کی آواز میں فطری طور پر دلکشی ، نرمی اور نزاکت ہوتی ہے، جو مرد کو اپنی طرف کھینچتی ہے، اس بنا پر بات کرنے سے منع نہیں کیا گیا بلکہ نرم اور لچکدار لب و لہجہ سے منع کیا گیا ہے۔
اسی طرح دوسرے مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے:
“وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوهُنَّ مِن وَرَاءِ حِجَابٍ”.[الاحزاب:53]
’جب تم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں سے کوئی چیز طلب کرو تو پردے کے پیچھے سے طلب کرو‘۔
حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ جیسے فقیہ اور عالم صحابی ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے علم و فضل کے متعلق اپنا اور اپنے جیسے دوسرے ساتھیوں کا تجربہ بایں الفاظ بیان کرتے ہیں:
“مَا أَشْكَلَ عَلَيْنَا أَصْحَابَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدِيثٌ قَطُّ فَسَأَلْنَا عَائِشَةَ إِلَّا وَجَدْنَا عِنْدَهَا مِنْهُ عِلْمًا”.[سنن الترمذی:3883]
’ہم اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب کبھی کسی حدیث کے معاملہ میں کوئی مشکل پیش آئی اور ہم نے اسے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا تو ان کے پاس اس کا علم پایا‘۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ، صحابہ کرام میں ایک مرجع کی حیثیت رکھتی تھیں اور مشکل مسائل کے لیے صحابہ کرام آپ سے رابطہ کرتے تو ان کا حل انہیں بتاتی تھیں، اگر آواز پردہ ہوتی تو مسائل وغیرہ کے لیے رجوع نہ کیا جا تا۔
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ ایک حدیث کی تشریح کرتے ہوئے لکھتےہیں:
’ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اجنبی عورت کی گفتگو سننا جائز ہے اور عورت کی آواز قابل ستر نہیں‘۔ [فتح الباری:13/252]
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ایک حدیث کی تشریح میں امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی لکھاہے، کہ ضرورت کے وقت اجنبی عورت کی گفتگو سننا جائز ہے۔ اور عورت کی آواز پردہ میں شامل نہیں ہے۔ [شرح مسلم از نووی:13/11]
لہذا ہمارے رجحان کے مطابق اگر کوئی عورت خوش الحانی سے قرآن کی تلاوت کرتی ہے، تو مرد اس کی تلاوت سن سکتے ہیں۔ اسی طرح اس کی تقریر سے بھی فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے، کتاب و سنت میں کوئی ایسی دلیل نہیں جس سے ثابت ہوتا ہو کہ عورت کی آواز پردے کا حصہ ہے۔ صرف اتنی پابندی ہے کہ عام لوگوں سے گفتگو کرتے وقت لب و لہجہ ذرا سخت ہونا چاہیے۔
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين
مفتیانِ کرام
فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ