سوال (3612)
شیخ اہل بدعت کی طرف سے یہ سوال ہے کہ جس طرح قرآن کو تحریری طور پر لکھا گیا تھا، صحابہ کے دور میں لیکن زبر زیر نہیں تھے، بعد میں آنے والوں نے مل کر لگائے ہیں، بعد میں آنے والے لوگوں کی سہولت کے لیے، بلکل اسی طرح معراج والی رات نبی علیہ الصلاۃ والسلام کی خصوصی شان بیان کرنے کے لیے لوگوں کے لیے سہولت کے لیے رجب کے مہینے میں اس کا اتفاق کیا گیا ہے، اگر یہ بھی بدعت ہے تو قرآن میں زبر زیر لگانا بھی بدعت کہلائے گا، رہنمائی فرما دیں۔
جواب
قیاس مع الفارق ہے، مقلد کو یہ کام نہیں کرنا چاہیے، مقلد کو صرف وہ کام کرنے چاہیے، جو ان کے امام نے بتایا ہے، خواہ سند ہو یا نہ ہو، اس کو اپنے دائرے میں رہنا چاہیے، اجتہاد اس کے بس کی بات نہیں ہے، ورنہ وہ مقلد کس بات کا ہے، باقی رہ گیا ہے کہ قرآن مجید کے اعراب کا مسئلہ ہے، وہ تو بغیر اعراب کے دنیا میں کوئی چیز نہیں ہوتی ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم پڑھ کر سنایا ہے، صحابہ کرام نے یاد کیا ہے، تابعین نے سیکھا ہے، جب عرب و عجم کے اختلاف آئے تو قرآن اعراب کے ذریعے محفوظ کیا گیا ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
اہل بدعت سے رب العالمین نے عقل و شعور، بصیرت دینیہ، بصیرت فقیہ کو چھین لیا ہوا ہے یہی وجہ ہے کہ تاریخ اسلامی میں کوئی بدعتی محدث و رجال و علل کا ماہر امام نہیں گزرا ہے، رب العالمین نے اہل بدعت سے خدمت حدیث، دفاع حدیث کا کام نہیں لیا ہے۔ باقی جواب شیخ ناصر صاحب دے چکے ہیں۔
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ