سوال

تہجد کی نماز پڑھنے سے کیا تہجد کی نماز فرض ہو جاتی ہے ؟ اگر فرض ہو جاتی ہےتو کبھی نہ پڑھ سکے تو کیا کیا جائے؟

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

انسان کا دنیا میں آنے کا مقصد عبادت ہے جیسا کہ اللہ  تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں ارشاد فرمایا ہے:

“وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ” [الذاریات:56]

’میں نے جنات اور انسانوں کو محض اسی لیے پیدا کیا ہے کہ وه صرف میری عبادت کریں‘۔

عبادات میں سے ایک اہم عبادت نماز ادا کرنا ہے اور نماز کی تین اقسام ہیں۔

1:فرض                        2: سنن مؤکدہ (تاکید والی سنتیں )               3:عام نوافل

فرض میں پانچ نمازیں( فجر، ظہر، عصر، مغرب، اور عشاء )ہے۔جیساکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:

“خَمْسُ صَلَوَاتٍ كَتَبَهُنَّ اللَّهُ عَلَى الْعِبَادِ”. [سنن نسائی:462]

’اللہ نے اپنے بندوں پر پانچ نمازیں فرض کی ہیں‘۔

سنن مؤکدہ یعنی وہ نوافل جن کی فرض نماز سے پہلے اور بعد میں نبی کریمﷺنے  اہمیت اور فضیلت بیان فرمائی ان کو سنن مؤکدہ یا سنن راتبہ کہا جاتاہے۔ اور اس کی 12 رکعات ہیں جیسا کہ حدیث میں اس کی وضاحت ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

“مَنْ ثَابَرَ عَلَى ثِنْتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً مِنَ السُّنَّةِ بَنَى اللَّهُ لَهُ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ، أَرْبَعِ رَكَعَاتٍ قَبْلَ الظُّهْرِ، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَهَا وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْمَغْرِبِ، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْعِشَاءِ، وَرَكْعَتَيْنِ قَبْلَ الْفَجْرِ”. [سنن ترمذی:414]

’’جو بارہ رکعت سنت پر مداومت کرے گا اللہ اس کے لیے جنت میں ایک گھر بنائے گا: چار رکعتیں ظہر سے پہلے دو رکعتیں اس کے بعد، دو رکعتیں مغرب کے بعد، دو رکعتیں عشاء کے بعد اور دو رکعتیں فجر سے پہلے“۔

نماز کی تیسری قسم ہے دیگر  نوافل ہیں، جن میں تہجد،اشراق،چاشت وغیرہ نمازیں شامل ہیں۔

سنن مؤکدہ اور نفل نماز ادا کرنے کا ایک تو فائدہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کا اجر اور ثواب عطا فرماتے ہیں اور دوسرا فائدہ یہ ہے کہ اگر کسی کی فرضی نماز میں کمی،بیشی ہوئی ہو تو ان کو ادا کرنے سے اللہ وہ کمی بیشی پوری کر دیتے ہیں۔ جیسا کہ فرمانِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہے:

“إِنَّ أَوَّلَ مَا يُحَاسَبُ بِهِ الْعَبْدُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ عَمَلِهِ صَلَاتُهُ فَإِنْ صَلُحَتْ فَقَدْ أَفْلَحَ وَأَنْجَحَ وَإِنْ فَسَدَتْ فَقَدْ خَابَ وَخَسِرَ، فَإِنِ انْتَقَصَ مِنْ فَرِيضَتِهِ شَيْءٌ قَالَ الرَّبُّ عَزَّ وَجَلَّ: انْظُرُوا هَلْ لِعَبْدِي مِنْ تَطَوُّعٍ فَيُكَمَّلَ بِهَا مَا انْتَقَصَ مِنَ الْفَرِيضَةِ، ثُمَّ يَكُونُ سَائِرُ عَمَلِهِ عَلَى ذَلِكَ”. [سنن ترمذی:413]

’قیامت کے روز بندے سے سب سے پہلے اس کی نماز کا محاسبہ ہو گا، اگر وہ ٹھیک رہی تو کامیاب ہو گیا، اور اگر وہ خراب نکلی تو وہ ناکام اور نامراد رہا، اور اگر اس کی فرض نمازوں میں کوئی کمی ہو گی تو رب تعالیٰ فرشتوں سے فرمائے گا  میرے بندے کے پاس کوئی نفل نماز ہے؟ چنانچہ فرض نماز کی کمی کی تلافی اس نفل سے کر دی جائے گی، پھر اسی انداز سے سارے اعمال کا محاسبہ ہو گا‘۔

تہجد کی نماز نوافل میں سے ہے یہ فرض نہیں ہےلیکن اگر کوئی شروع کرتا ہے تو بہتر یہ ہے کہ اس کو جاری رکھے۔جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ سلم نے ارشاد فرمایا ہے:

“انَّ أَحَبَّ الأَعْمَالِ إِلَى اللَّهِ أَدْوَمُهَا وَإِنْ قَلَّ”. [صحیح البخاری:6464]

’میرے نزدیک سب سے پسندیدہ عمل وہ ہے جس پر ہمیشگی کی جائے ۔ خواہ کم ہی کیوں نہ ہو‘۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما کے بارے میں ارشاد فرمایا تھا:

“نِعْمَ، الرَّجُلُ عَبْدُ اللَّهِ لَوْ كَانَ يُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ فَكَانَ بَعْدُ لَا يَنَامُ مِنَ اللَّيْلِ إِلَّا قَلِيلًا”. [صحیح البخاری:1122]

’وہ بہت اچھا آدمی ہے اگر رات کو قیام کا اہتمام کر لے‘۔

اس کے بعد حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اس کا اہتمام کیا اور زندگی بھر ناغہ نہیں کیا۔

عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:

«‌مَنْ ‌نَامَ ‌عَنْ ‌حِزْبِهِ، ‌أَوْ ‌عَنْ ‌شَيْءٍ ‌مِنْهُ، ‌فَقَرَأَهُ ‌فِيمَا ‌بَيْنَ ‌صَلَاةِ ‌الْفَجْرِ وَصَلَاةِ الظُّهْرِ، كُتِبَ لَهُ كَأَنَّمَا قَرَأَهُ مِنَ اللَّيْلِ”.»[صحيح مسلم:747]

’جو شخص (اپنے رات کے) تلاوتِ قرآن کے مخصوص وِرد سے سویا رہ جائے،  لیکن اسے فجر اور ظہرکی نماز کے دوران پڑھ لے تو   گویا اس نے رات کو ہی پڑھ لیا ہے‘۔

اسی طرح حضرتِ عائشہ رضی اللہ عنہا  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تہجد کی نماز کی کیفیت بیان کرتے ہوئے  فرماتی ہیں :

«وَكَانَ نَبِيُّ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم إِذَا صَلَّى صَلَاةً أَحَبَّ أَنْ يُدَاوِمَ عَلَيْهَا. وَكَانَ إِذَا غَلَبَهُ ‌نَوْمٌ ‌أَوْ ‌وَجَعٌ عَنْ قِيَامِ اللَّيْلِ صَلَّى مِنَ النَّهَارِ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً.» [صحيح مسلم:746]

’اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ تھی  کہ آپ جو نماز پڑھتے تو پھر اس پر ہمیشگی اختیار کرنا پسند فرماتے، لیکن  اگر نیند کے غلبے یا بیماری کے سبب آپ سے  تہجد کی نماز رہ جاتی تو آپ اس کے عوض صبح چاشت کے وقت بارہ رکعات نوافل ادا کرتے‘۔

حاصلِ کلام یہ ہے کہ تہجد یا دیگر کوئی بھی نفل نماز پڑھنے سے فرض نہیں ہو جاتی، لیکن  عبادات پر ہمیشگی اختیار کرنا یہ مسنون اور مستحب عمل ہے، لہذا اس کا اہتمام کرنا چاہیے، البتہ  اگر کبھی ناغہ  ہو جائے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے۔ اور تہجد کے حوالے سے یہ بھی مسنون ہے کہ اگر کسی سبب رات کو رہ گئی ہے تو  رات کو جتنی طاق رکعات ادا کرتا ہے، صبح چاشت کے وقت ان میں ایک رکعت کا اضافہ کرکے جفت تعداد میں  اتنے نوافل پڑھ لے۔ مثلا اگر کوئی تہجد کی گیارہ رکعت پڑھتا تھا تو صبح سورج طلوع ہونے کے بعد وہ بارہ رکعتیں پڑھے گا۔ اگر کوئی نو رکعتیں پڑھتا تھا تو وہ سورج طلوع ہونے کے بعد دس رکعتیں پڑھے گا۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ