کوہ زاد جو تمام عمر پہاڑوں سے سینہ آزما رہا، نہ رہا۔ سنگ نژاد جو خاک و سنگ سے زندگی برامد کرنے میں تا عمر مَحو رہا، اپنی زندگی سپردِ خاک و سنگ کر گیا۔ میرا فرہاد جو تمام زِیست تیشہ بدست کئی بے ستونوں کے عروقِ مردہ کو زندگی آشنا کرتا رہا، نہ رہا۔
بدھ ۲۰ جولائی کا دن جب اپنی ابتدائی سانسیں لے رہا تھا، آغاز سحر موذن تہجد کےلیے ندا دینے لگا، مگر ابا کو قیام و سجود کے سنگ ہائے میل خوش نہ آئے اور سیدھے بڑے دربار جا پہنچے۔ گھڑی کی سوئی دو اور تین کے عین بیچ آخری سانسوں کی طرح ڈول رہی تھی کہ جب؎
وہ جن کے ذکر سے رگوں میں دوڑتی تھیں بجلیاں
انھیں کا ہاتھ ہم نے چُھو کے دیکھا کتنا سرد ہے
اور ابا نہیں رہے۔
ابا نہیں رہے، ہماری دنیا تلپٹ ہوگئی، مگر دنیا میں کچھ نہ بدلا۔ دنیا میں بس اتنا بدلاؤ آیا کہ کونے والے کمرے سے ابا کے وجود کے ساتھ ان کا بستر بھی ہٹ گیا۔ دوائیوں کا کارٹن اٹھ گیا۔ ابا کے پہناوے چُھپ گئے۔ خاموش وجود سے اٹھتی مدھم سانسوں کی مسلسل آواز جو آخری دو دن معمول سے تیز ہوئی تھی، اب نہیں آتی۔
گونگفیوق مسجد میں نمازِ فجر کے مستقل نمازیوں کی تعداد سات سے اب چھے ہوگئی۔ اگلی صف میں دائیں سے چوتھی نِشَست اپنے مانوس نمازی کو ڈھونڈتی ہے۔ عصر اور مغرب کے بعد تلاوت کی آوازوں میں سے ایک اب سنائی نہیں دیتی۔ قبرستان میں ایک تازہ قبر کا اضافہ ہوا۔ دعا میں صحت و عافیت کے جگہ اب ابا کےلیے درجات و مغفرت مانگتا ہوں۔ دنیا میں بس اتنا ہی بدلاؤ آیا ہے۔
ابّا پاکستان سے گیارہ سال بڑے تھے اور چھیاسی کے سِن میں تھے۔ ماتھے پر سات شکنیں پڑی تھیں؛ ہر شکن ایک لوسْکور* اور ساڑھے تین ماہ کی مشقتوں، رازوں، دُکھوں اور وُقوعوں کا استعارہ تھی۔ جوانی میں ابّا شہ زور تھے۔ کچھ سالوں سے کُہنہ عمری نے اور آخری دنوں علالت نے ایسا نچوڑا کہ پنجر ہی رہ گئے۔ لحم و شحم کب کے پگھل چکے تھے۔ بازو اٹھاتے تو نحیف ہڈی پر جِلد یوں لٹکتی جیسے الگنی پر ڈالا گیا کپڑا۔ بستر سے لگے لگے بِن گودے کی ہڈیاں اور ان سے لٹکتی سال خوردہ جلد دُکھنے لگتی تو ہاتھ کے ہلکے سے اشارے سے اٹھانے کا کہتے۔ اٹھاتا اور ان کی پیٹھ کے پنجرے کو اپنے پیٹ کا سہارا دیتا۔ دو ثانیے گزرتے تو کہتے بیٹا تمھیں تکلیف ہو رہی ہے مجھے لٹا دو۔ میں کہتا نہیں ابا مجھے بالکل تکلیف نہیں ہو رہی، آپ کو جس پہلو سہولت ہو بتانا میں اپنا جسم اس ہیئت میں ڈھال لوں گا۔ سر کو ہلکا سا اثبات میں ہلاتے مگر ساری عمر دوسروں کی فکر میں گزارنے والا پھر بے چین ہو اٹھتا اور کہتے بیٹا آپ پر بوجھ پڑ رہا ہے مجھے لٹا دو۔
کاش آپ جانتے ابا! بوجھ تو مجھ پر اب پڑا ہے۔ اپنا نحیف وجود ہٹا کر کتنی ہی ذمے داریوں کا بوجھ مجھ پر آپ لاد گئے ہیں۔ ہفتے بھر میں ہانپنے لگا ہوں، تاعمر انھیں کیوں کر اٹھا پاوں گا۔
——
*لوسْکْور: قدیم تبتی/ بلتی تقویم میں بارہ سالوں کا ایک چکر، اب بھی بڑے بوڑھے عمروں کا حساب سالوں کے بجائے لوسکور میں رکھتے ہیں۔

زاہد سعید